ایک بار حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ سے پوچھا کہ یا اللہ جتنا میں آپکے قریب ہوں آپ سے بات کر سکتا ہوں اتنا کوئی اور قریب ہے؟ اللہ کریم نے فرمایا اے موسیٰ آخری وقت میں ایک امت ِ محمد ﷺ ہوگی اور اس امت کو ایک مہینہ ایسا ملے گا جس میں وہ خشک ہونٹوں، پیاسی زبان، سوکھی ہوئی آنکھوں، بھوکے پیٹوں جب افطار کرنے بیٹھے گی تب میں انکے بہت قریب ہوں گا۔ موسیٰ تمھارے اور میرے درمیان ستر پردوں کا فاصلہ ہے لیکن افطار کے وقت اس امت اور میرے درمیان ایک پردے کا فاصلہ بھی نہیں ہوگا اور وہ جو دعا مانگیں گے وہ قبول ہوگی۔ اور فرماتے ہیں اگر میرے بندوں کو پتہ چل جائے کہ رمضان کیا ہے تو سب تمنا کرتے کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمت ہے، دوسراعشرہ مغفرت ہے اور تیسرا عشرہ آتشِ دوزخ سے نجات کی ضمانت کا ہے ۔رمضان المبارک شروع ہوتے ہی اللہ کریم اپنے بندوں کو نظرِ رحمت سے دیکھتا ہے اور جسے ذاتِ خداوندی نظرِ رحمت سے دیکھ لے اُسے عذاب نہیں دیتا۔ عالمِ اسلام کو مبارک ہو کہ خالقِ کائنات نے جنت کو سجا دیا ہے اور جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں ۔ ماہِ رمضان بخشش کی ضمانت اور گناہوں کی معافی کا مہنیہ ہے ۔ اسی لیے رب کریم فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا بھی میں خود دیتا ہوں ۔عالمِ اسلام کو ایک قالب و یک زبان ہو کر عالم ِ اسلام پر بڑھتے ہوئے مظالم کیلئے آواز اُٹھانا پڑیگی۔ مجھے کبھی کبھی غیرتِ مسلم کو جھنجھوڑنے کی ضرورت پر زور دینا وقت کی اہم ضرورت لگتا ہے کیوں کہ آج دنیا میں جو کرونا جیسا عذاب نازل ہوا ہے دنیا کو سمجھنا پڑیگا کہ آخر اسکی وجہ ہے کیا ؟ دنیا ایک ویکسین بناتی ہے تو کرونا اپنی Shape تبدیل کر لیتا ہے ایک بے جان چیز ایسانہیں کر سکتی یہ سب اللہ کی مرضی سے ہے اور اس کا علاج صرف اور صرف توبہ و استغفار کے اندر پوشیدہ ہے کیونکہ علاج بیماریوں کا ہوتا ہے اللہ کے عذاب کا کوئی علاج نہیں ہے سوائے اسکے کہ ہم جن جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں ان سے توبہ کریں اور جتنی جلدی ممکن ہو سکے اس کا ازالہ کیا جانا ضروری ہے۔ اگر تمام اسلامی ممالک کے سربراہان اکٹھے ہو کر روضۂ رسول ﷺ پر نہیں جا سکتے تو ہمارے وزیر اعظم عمران خان جو شاید رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کرائون پرنس کی دعوت پر سعودی عریبیہ جانیوالے ہیں اپنے ساتھ ہر مکتب فکر کے علمائے کرام کا ایک وفد لے کر جائیں۔ بیت اللہ شریف اور روضہ رسولؐ پر حاضری دیں۔اغیار در پر ماتھا رگڑنے سے بہتر ہے کہ اپنے اللہ کریم سے مدد طلب فرمائیں۔ مگر اس کیلئے اپنے اندر کی منافقتیں ختم کر یں ۔ کیا ہمیں معلوم نہیں ہے کہ منافق جہنم کے سب سے نچلے حصے میں ہونگے یعنی کافروں سے بھی نیچے ۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ منافقتیں فرما کر کس طرح اتراتے ہیں خاص طور پر ہمارے سیاستدان ایک جگہ بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں ۔ انھیں اگر اللہ کی ناراضگی کا علم ہو جائے کہ منافق کی سزا کیا ہے تو یہ کبھی ایسا کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے مگر افسوس ہم دنیا کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اتنی دور چلے گئے ہیں کہ مرنا بھی بھول گئے ہیں ۔ یقین جانیں دنیا میں جب رسوائیاں مقدر بنتی ہیں تو وہ دراصل اللہ کی ناراضگی ہوتی ہے۔ تم جو مرضی کر لو مٹی سے بنے ہو اسی مٹی میں فنا ہونا پڑیگا کوئی عہدہ اور دولت آپکو نہیں بچا سکے گی۔ آج وقت ہے کہ اللہ کو راضی کر لیا جائے اس کیلئے ہماری خوش قسمتی ہے کہ اللہ کریم نے ہمیں ایک اور رمضان عطا کر دیا ہے۔کب تک دنیا کی دولت سے عہدے خرید کر ذلیل و رُسوا ہوتے رہو گے اور ہاں تمھیں بتا دوں اگر دولت سمیٹنی ہے تو عشق ِ رسول ﷺ کی دولت سمیٹ لیں۔
تیرے عشق دی دولت مل جاوے
دنیا دی دولت کی کرنی
تیرے دَر دی گدائی مل جاوے
شاہی دی شوکت کی کرنی
ایہو آرزو میرے سینے وچ
مراں جیواں شہر مدینے وچ
بنے قبر مدینے وچ میری
ایتھوں دی تربت کی کرنی
مل جان مدینے دیا گلیاں
جارو ب کشی لئی جے مینوں
ایسے خدمت وچ بڑی عظمت ہے
شاہاں دی خدمت کی کرنی
جہدے نال توں راضی رب راضی
جہدے نال تو خفا رب وی خفا
تیری چاہت اندر سب کچھ ہے
کسے ہور دی چاہت کی کرنی
کچھ پتہ نہیں اگلا رمضا ن مقدر میں ہے یا نہیں اسی رمضان کی رحمتیں اور برکتیں سمیٹ کر اللہ کے حضور اپنے آپ کو سرخرو کر لیں اور یقین جانیں :
ماہِ رمضان اللہ کے انوار کی برستی بارش ہے
اللہ کی رحمتوں کا موسم بہار ہے ۔
٭…٭…٭