لاہور( سپیشل رپورٹر ) سول سیکرٹریٹ کے سامنے 37 روز سے جاری کالج اساتذہ کے دھرنے پر سحری کے فوراً بعد پولیس نے دھاوا بول دیا۔ احتجاجی کیمپ اکھاڑ دیا گیا۔ سامان ٹرک میں لاد کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔ مزاحمت کرنے والے اساتذہ کو دھکے اور گالیاں دی گئیں۔ ویڈیو بنانے والے اساتذہ کے موبائل فون چھین لئے گئے اور کچھ کو سڑک پر پھینک کر توڑ دئیے گئے۔ سحری کے بعد جب احتجاجی اساتذہ کی اکثریت قریبی مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لئے گئی ہوئی تھی پولیس کی بھاری نفری ایس پی کی سربراہی میں اچانک پہنچ گئی۔ آپریشن کی نگرانی اسسٹنٹ کمشنر کررہے تھے۔ پنجاب بھر کے اساتذہ اور طلباء میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ رحیم یار خان سے لے کر راولپنڈی تک تدریسی عمل کا بائیکاٹ کیا گیا اور سڑکوں پر احتجاج کیا گیا۔ پے پروٹیکشن کمیٹی کے رہنمائوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے فوری صوبے کے تمام کالجز میں عید تک تدریسی بائیکاٹ کا اعلان کیا اور کہا کہ اگر ان کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا تو عید کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر دھرنا دیں گے اور اس مرتبہ احتجاج وزیراعلی ہائوس کے سامنے ہو گا۔ کالج اساتذہ کا دعویٰ ہے کہ پے پروٹیکشن کا کیس وہ سپریم کورٹ سے جیت چکے ہیں۔ محکمہ ہائر ایجوکیشن اور متعلقہ وزیر پے پروٹیکشن دینے کے لئے تین سال قبل ان سے تحریری معاہدہ کرچکے ہیں۔ لیکن پے پروٹیکشن نہیں دی جارہی اور اس کے لئے مختلف حیلے بہانے استعمال کئے جا رہے۔ ہیں۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے فیصلے ہمارے حق میں آئے ہیں۔ اس کے باوجود ہمیں ہمارا حق نہیں دیا جارہا ہے۔ پولیس کی غنڈہ گردی پر گزشتہ روز پورے پنجاب کے کالجز بند رہے ہیں، پرامن دھرنے پر پولیس کارروائی پر جن اساتذہ نے ویڈیو بنائی ان کے موبائل توڑ دیئے گئے ہیں۔ اساتذہ نے پے اینڈ سروس پروٹیکشن پنجاب کے حوالے سے لکشمی چوک میں بھی بھرپور احتجاج کیا۔ کنوینر پے اینڈ سروس پروٹیکشن پنجاب چودھری غلام مرتضیٰ نے کہا پنجاب حکومت اور افسر شاہی نے اساتذہ کے پر امن دھرنے پر دھاوا بولا ہے‘ اساتذہ کو زدوکوب کیا۔ احتجاج میں طلبا وطالبات کی بڑی تعداد بھی موجود تھی جنہوں نے شدید نعرہ بازی کی‘ پولیس کی غنڈہ گردی نہیں چلے گی۔