افغانستان کا انسانی بحران او ر دنیا کا رویہ

Apr 13, 2022

گزشتہ سال وسط میں افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد روس وہ پہلا ملک ہے جس نے افغان سفارتکار کی اپنے ملک میں تقرری کی ہے ۔ طالبان کو تقریبا آٹھ ماہ سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے جب سے انہوں نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا ہے لیکن اسلامی ممالک سمیت کسی بھی ملک نے انہیں باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ۔ روس نے بھی یہ ایسے موقع پر کیا ہے جبکہ یوکرائن کے ساتھ اس کی جنگ مسلسل جاری ہے اور وہ امریکہ سمیت یورپ کے تمام ممالک سے تعلقات شدید ہو چکے ہیں ۔ مختلف عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کو اس وقت انسانی دنیا کے سب سے بڑا بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ عالمی ادارہ خوراک کے مطابق اس وقت تئیس ملین افغان بھوک کا شکار ہیں جن میں نو ملین قحط کے قریب ہیں ۔ اس وقت دس لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ لاکھوں بچے سکول جانے سے محروم ہیں ۔ ملک کی آبادی کا بیس فیصد حصہ خشک سالی کا شکار ہونے کی وجہ سے مقامی سطح پر شدید قحط سالی پائی جارہی ہے ۔ خشک سالی کی وجہ سے افغان شہریوں کی بڑی تعداد ملک سے نقل مکانی کر رہی ہے اور اس کا ذیادہ ھصہ پاکستان کی طرف منتقل ہو رہا ہے ۔ 97 فیصد ملک کی آباد غربت کا شکار ہے ۔طالبان کے اقتدار سے قبل ملکی آمدنی کا چالیس فیصد بین الاقوامی امداد سے حاصل ہوتا تھا۔ اس امداد کے ذریعے حکومت کے اخراجات کا 75 فیصد پورا کیا جاتا تھا۔ ورلڈ بینک کے مطابق سالانہ ترقیاتی امداد، جو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد معطل کر دی گئی، سن 2019 میں 4.2 ارب ڈالر تھی۔ یہ امداد سن 2011 میں 6.7 ارب ڈالر سے زیادہ تھی۔ 2021 میں افغانستان کو 1.72 ارب ڈالر کی امداد ملی جو اس کی ضروریات کے لحاظ سے بہت کم تھا ۔ افغانستان میں مالی بحران کی ایک بڑی وجہ اس کے وہ اربوں ڈالر کے اثاثے تھے جو امریکہ نے ضبط کر لیے ہیں ۔ اس وقت جو تھوڑی بہت امداد مل رہی ہے وہ بھی براہ راست افغان حکومت کو نہیں مل رہی بلکہ یونیسیف جیسی تنظیموںکو دی جاتی ہے ۔ 
 اسلامی ممالک کی تنظیم کا 48واں اجلاس پاکستان میں ہوا جس میں انسانی بحران پر شدید قسم کی تشویش کا اظہار کیا گیا تھا ۔اسلام آباد میں ہونے والی اس کانفرنس میں تقریباً اڑتالیس ممالک نے شرکت کی ۔ اس اجلاس میں افغانستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا ۔ اسی طرح افغانستان کے مسئلہ پر امریکہ روس چین اور پاکستان کا اجلاس گزشتہ دنوں ہوا جس میں سرفہرست افغانستان کا انسانی بحران ہی تھا ۔اس اجلاس میں افغانستان میں بگڑتی ہوئی انسانی اور معاشی صورتحال کے حوالے سے اپنی گہری تشویش پر زور دیا اور افغانستان کے عوام کے لیے غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا۔ بنیادی انسانی ضروریات کی حمایت میں انسانی امداد اور سرگرمیوں کی فراہمی میں سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر تجارتی، بینکنگ اور سرمایہ کاری کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے افغانستان کو مزید انسانی امداد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی طرف سے انسانی امداد اور دیگر مدد کی فراہمی کو مربوط کرنے کے لیے اقدامات کے لیے اپنی رضامندی کا اعادہ کیاجو خوش آئند ہے ۔افغانستان کے بارے میں یہ  توسیعی ٹرائیکا اجلاس چین کے صوبہ آنہوئی کے شہر تونشی میں منعقد ہوا۔ چین، روس، امریکہ اور پاکستان کے حکام نے افغانستان کی تازہ ترین صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، اور ملاقات کے موقع پر طالبان کے سینئر نمائندوں سے ملاقات کی۔
اس اجلاس میں کہا گیا کہ طالبان نے متعدد مواقع پر یہ عہد کیا ہے کہ وہ پورے ملک میں تمام سطحوں پر خواتین اور لڑکیوں سمیت تمام افغانوں کو تعلیمی حقوق فراہم کرنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے ۔بین الاقوامی برادری کے لیے یہ سب سے اہم اور سب سے پہلے ہے ۔ اس موقع پر ان چار ممالک کے رہنمائوں نے اقتصادی ترقی اور استحکام، انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ اور پیشہ ور افغانوں اور ان کے خاندانوں کی ملک میں رضاکارانہ واپسی کے مفاد میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ افغانستان کے متعلقہ حکام تمام لڑکیوں کی اسکول واپسی کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے اور اس کے واضح نتائج حاصل ہوں گے۔ خواتین اور لڑکیوں کے لیے ہر سطح پر تعلیم تک رسائی ایک بین الاقوامی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کی تکمیل بین الاقوامی برادری کے ساتھ افغانستان کے تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ طالبان کی اپنی بیرونی مصروفیات کو معمول پر لانے کی کوششوں کے لیے سازگار ہے۔ طالبان نمائندہ نے ا س موقع پر یقین دلایا کہ ہمیں خواتین اور لڑکیوں سمیت تمام افغانوں کے لیے ثانوی تعلیم پر پیش رفت دیکھنے کی بھی ضرورت ہے، جبکہ ہم خواتین اور لڑکیوں کے لیے اسکول دوبارہ کھولنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی ضروری مدد کی پیشکش کو سراہتے ہیں۔ یونیسیف اور دیگر کی طرف سے تعلیم کے شعبے میں پیشرفت کی حمایت اور نگرانی کے لیے کام کا خیرمقدم کرتے ہیں ۔اس موقع پر مطالبہ کیا گیا کہ افغان متعلقہ فریقوں سے انسداد منشیات کی کوششوں کو بڑھائے اور فصلوں کے متبادل پروگراموں کو تیار کرنے اور منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے اور منشیات کے مسئلے کو ختم کرنے کی طالبان کی مجموعی کوششوں پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ۔ اس موقع پر افغانستان کی معیشت میں نقد رقم کی لیکویڈیٹی کی شدید کمی پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا گیا ۔ آسان اور جائز بینکنگ خدمات کی سہولت کے لیے مزید اقدامات اٹھانے کی فوری ضرورت پر اتفاق کیا، جس کے مقصد سے افغانستان کو معاش کی مشکلات سے نجات دلانے، مارکیٹ کی زندگی کو بڑھانے، اپنی معیشت کو دوبارہ شروع کرنے اور ملک کی تعمیر نو کے عمل کو فروغ دینے میں مدد کرنا ہے۔
متعلقہ فریقوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ افغان عوام کے فائدے کے لیے ملک سے باہر رکھے گئے افغانستان کے مرکزی بینک کے ذخائر کے تصرف کے حوالے سے پیشہ ورانہ اور دوستانہ مشاورت جاری رکھیں۔ایک قابل افغان سنٹرل بینک کا مطالبہ کیا گیا جو ملک کی مانیٹری پالیسی کو منظم کرنے کے لیے اہل ماہرین کے ذریعے چلایا جائے، بشمول نقد رقم کی پیداوار اور تقسیم، ملک کے تجارتی بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کو منظم کرنے، اور منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے سخت کنٹرول کو برقرار رکھنے کے لیے۔ دہشت گردی کی مالی معاونت یا دیگر غیر قانونی سرگرمیاں؛ بین الاقوامی برادری مستقبل میں زیادہ پیشہ ورانہ طور پر خود مختار اور قابل مرکزی بینک کی مدد کرنے کے طریقوں پر غور کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ اور متعلقہ فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں کے ساتھ عارضی اقدام کے طور پر کام کریں تاکہ افغانستان میں موجودہ انسانی اور معاشی مشکلات کو کم کرنے میں مدد مل سکے۔

مزیدخبریں