قومی افق … فیصل ادریس بٹ
بلوچستان میں سر اٹھاتی دہشت گردی کی لہر نے ہماری سکیورٹی فورسز کو ایک مرتبہ پھر اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ ملک و عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے دہشت گردوں کے خلاف ایک گرینڈ آپریشن پلان کریں جس میں دہشت گردوں کو جہنم واصل کر کے ملک و قوم کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے دہشت گردی کی لہر کو روکنے میں مصروف عمل ہیں۔ جیسا کہ دو روز قبل کوئٹہ میں پولیس کی گاڑیوں کی قریب 2 دھماکوں کے نتیجے میں2 پولیس اہلکاروں خاتون سمیت 4 افراد شہید جبکہ 19زخمی ہوگئے۔ ملکی سلامتی کی حفاظت پر مامور یہ شہداء اور اُن کے اہل خانہ کے لئے قیامت صغریٰ برپا ہے۔ پاک فوج کی حال ہی میں کمان سنبھالنے والے سپہ سالار سید عاصم منیر کو ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے علاوہ ملک میں عدم استحکام گرتی معیشت سیاسی بحران اور مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والی تبدیلیاں کا بھی سامنا ہے چند روز قبل حکومت پاکستان نے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کر رکھا تھا جس میں مسلح افواج کے تمام چیفس نے شرکت کی ۔ اجلاس میں ملکی صورتحال پر امیق نظر ڈالی گئی جس کے بعد حتمی طور پر یہ فیصلہ ہوا کہ ملک کو اس وقت ٹی ٹی پی کی جانب سے دہشت گردی کی وارداتوں سے چھٹکارا دلانا ضروری ہے۔
قومی سلامتی اجلاس میں ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف ایک نئے آپریشن کی ازحد ضرورت پر زور دیا گیا ہے ۔ اس آپریشن کے لئے فنانس ڈویژن سے فنڈز بھی طلب کر لیے گئے ہیں۔ اُمید ہے کہ عید کے فوراً بعد دہشت گردوں کے خلاف یہ آپریشن شروع کر دیا جائے گا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کی جانب سے وزارت خزانہ کو 21 ارب الیکشن کمیشن کو فراہم کئے جانے کے احکامات پر تاحال عملدرآمد نہیں ہو سکا بلکہ پارلیمنٹ میں متفقہ رائے سے قرارداد منظور کی گئی ہے کہ ملکی معاشی و دفاعی صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے فی الحال الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔ اگر سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 14 مئی کو پنجاب میں عام انتخابات نہیں کروائے جاتے تو موجودہ نگران پنجاب حکومت کے لئے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ نگران حکومت آئینی طور پر 90 روز کے لئے قائم کی جاتی ہے جو کہ (22 اپریل ہو سکتا) ہے اُس روز عیدالفطر ہو گی۔ آئینی طور پر 22 اپریل پنجاب حکومت کے خاتمے کے ڈیڈ لائن کیلئے مقرر کی گئی تاریخ ہے اگر الیکشن نہیں کروائے جاتے تو قانونی آئینی ماہرین پریشان ہیں کہ پنجاب حکومت کوکن بنیادوں پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔قانونی ماہرین کے مطابق اگر کوئی حل نہ نکلا تو عدالت میں درخواست دائر ہونے کی صورت میں پی ٹی آئی کی حکومت کو بحال کیے جانے کے احکامات بھی واضح ہیں۔
دوسری جانب سے اطلاعات آرہی ہیں کہ سیاسی پارٹیوں میں موجودہ بحران حل کرنے کے لئے رابطے کیے جا رہے ہیں۔ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان ڈیڈ لاک ختم کرنے کے لئے آصف علی زرداری اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی اپنے اپنے گارنٹر میدان میں اتارے اگر اُن پہ اظہار اطمینان کر دیا جائے تو آپس کے مذاکرات ایک دو روز میں حل ہو سکتے ہیں۔ رمضان المبارک کے تقدس کو مدِنظر رکھتے ہوئے پنجاب و وفاق حکومت نے زمان پارک پرچڑھائی کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے۔ اُمید ہے کہ برف کچھ پگھل رہی ہے۔
وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کو ہائیکورٹ کی جانب سے نااہل کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں نااہلی کے خلاف درخواست زیر سماعت ہے تاحال اُس کا کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ اگر سردار تنویر الیاس کو سپریم کورٹ آزاد کشمیر کی جانب سے ریلیف نہیں دیا جاتا تو سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی آزاد کشمیر میں دوبارہ حکومت بنا سکے گی؟ میری اطلاعات کے مطابق آزاد کشمیر میں اگر دوبارہ حکومت بنانے کی ضرورت پڑی تو پی ٹی آئی کی جگہ پیپلزپارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
آصف علی زرداری نے مسلم لیگ ن سے آزاد کشمیر میں حکومت بنانے کے لئے مدد مانگ لی ہے۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے چار ایم ایل اے گزشتہ روز سے اسلام آباد میں آصف علی زرداری کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے بعد سب سے زیادہ تکلیفیں خواتین کو درپیش ہیں جن میں آئے روز ڈاکٹر یاسمین راشد کے خلاف مقدمات قائم کئے جارہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یاسمین راشد پبلک آفس ہولڈ کرتی رہی ہیں اُن کے خلاف انکوائریز مقدمات روٹین کی کارروائی ہے۔ پی ٹی آئی کے لئے قربانیاں دینے والے جمشید چیمہ آجکل اپنی تمام تر مصروفیات ترک کر کے اپنے لیڈر عمران خان کی جانب سے دی گئی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں۔ اُن کی اہلیہ مسرت چیمہ جنہوں نے پی ٹی آئی میں کارکن کی حیثیت سے انتھک محنت کی ہے، ماہِ صیام میں صبح سے شام تک مختلف اداروں میں انکوائریاں بھگتنے، مقدمات میں عبوری ضمانتیں لینے، اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں گزار دیتی ہیں۔ مسرت چیمہ دن بھر یہ مشقت کرتی ہیں جبکہ رات پوری زمان پارک کے باہر عمران خان کی گرفتاری روکنے والے کارکنوں کے گروپ کے ساتھ سحری کا انعقاد کرتی ہیں۔مسرت چیمہ نے اپنی محنت اور وفاداری کے بل بوتے پر تحریک انصاف اور عمران خان کی نظر میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ اُن کا یہ کہنا ہے کہ اس وقت میرے لیڈر عمران خان کو ہماری ضرورت ہے۔ ہم تندہی سے اُس کی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں اور یہ سب کچھ کسی حصول کے لئے نہیں صرف اپنے لیڈر کی وفاداری کے لئے ہے۔ یاد رہے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے بڑے اہم رہنما صرف چہرہ دکھائی کے لئے تو ضرور زمان پارک آتے ہیں عملی طور پر ابھی اُن کا اپنے لیڈر اور تحریک انصاف نے کوئی انٹرسٹ نہیں ہے۔