اگلے ہفتے تک خدوخال واضح ہونے کا امکان

Apr 13, 2023

چوہدری شاہد اجمل
chohdary2005@gmail.com
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیراعظم کو آئین میں درج طریقہ کار یعنی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجے جا نے کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے جس کے بعد سے مختلف سیاسی جماعتوں کا اتحاد حکومت کے معاملات چلا رہا ہے۔تاہم اس وقت سے ملک کو سیاسی  ومعاشی اور آئینی  لحاظ سے کئی قسم کے چیلنجز کا  کا سامنا ہے۔پالیمان کی جانب سے ایک وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے جب گھر جانا پڑا تو ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے خود کو غیر جانبدار قرار دینے کا اعلان بھی سامنے آیا۔یوں ملک میں ایک نئے سیاسی باب کا آغاز ہوا لیکن ایک جانب جہاں اقتدار سے رخصت ہو کر دوبارہ حزب اختلاف میں جانے والی پاکستان تحریک انصاف نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج در احتجاج کا سلسلہ شروع کیا وہیں ملک کی باگ ڈورسنبھالنے والی پی ڈی ایم کا حکمران اتحادناقص پالیسیوں کے باعث عوام میں پذیرائی حاصل نہیں کرسکا۔
عدم اعتماد سے پہلے ہو نے والے ضمنی انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ عمران حان کی مقبولیت کم اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کو عوام کے بڑے حلقے میں پذیرائی مل رہی تھی اور اسی باعث اپوزیشن کا اس وقت کی حکمران جماعت پی ٹی آئی پر دباؤبھی برقرار تھا لیکن اپوزیشن کی جانب سے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر 27 مارچ کو انھوں نے اس تحریک کو ناکام کرنے کی کوشش کی اور پھر سائفر کے ذریعے بھی عوامی ہمدردی سمیٹنے کی  مہم چلائی گئی ۔ 9 اپریل 2022 کو اپنے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد وہ سڑکوں پر آئے اور اس وقت سے لے کر اب تک پاکستان میں ان کی مقبولیت میں اضافہ سامنے آ رہا ہے۔ ان سب باتوں کے باوجودسیاسی بحران میں بات چیت کے دروازے کھلتے نظر نہیں آ رہے اور عدلیہ کے بحران میں تقسیم اور ججز کے آپس کے احتلافات سامنے  آ گئے ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن  پنجاب میں اپنی مقبولیت برقرار نہیں رکھ سکی پہلے پنجاب کا کوئی ضمنی انتخاب ایسا نہیں ہوتا تھا جس کو وہ نہ جیتتے ہوں اور آج وہ کچھ بھی کہیں پہلے جیسے حالات نہیںپاکستان مسلم لیگ انتخابات نہیں کروانا چاہتی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت کو انتخابات کے لیے کمیشن کو فنڈز کی تقسیم کے لیے 10 اپریل کی تاریخ دی گئی تھی۔حکومت نے ابھی تک انتخابات کے لیے فنڈز جاری نہیں کیے اور اس کے بجائے الیکشن فنڈز کا معاملہ پارلیمنٹ کو بھیج دیا ہے، بل کو ایک قائمہ کمیٹی کے پاس بھیجا گیا ہے۔ ادھر سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کردہ ڈیڈ لائن کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عدالت عظمیٰ  کے رجسٹرار آفس میں سیل بند لفافے میں  رپورٹ جمع کرا دی ہے۔ سپریم کورٹ نے پنجاب میں انتخابات کے لیے 14 مئی کی تاریخ مقرر کی تھی اور وفاقی حکومت کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے لیے 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے کے الیکشن فنڈز کے اجرا کی ہدایت کی تھی۔ الیکشن کمیشن کو چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ کے چیمبرز میں 11 اپریل تک رپورٹ جمع کرانے اور یہ بتانے کی ہدایت کی گئی تھی کہ اس دوران نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میںبھی دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے وزارت خزانہ سے  فنڈز طلب کر لئے گئے ہیں۔
حکومت نے صدرمملکت کی جانب سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023  واپس بھیجے جانے کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دوبارہ منظور کرلیاہے۔ صدر مملکت نے 8 اپریل کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونے والا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اختیارات سے باہر قرار دیتے ہوئے نظرثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیا تھا۔ایوان صدر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔دوسری جانب وفاقی حکومت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق منظورہ کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے پارلیمنٹ میں دستور پاکستان کے گولڈں جو بلی کے کنونشن سے خطاب کا معاملہ سوشل میڈیا پر زیر بحث آنے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی کووضاحتی بیان جاری کر نا پڑا،انہوں نے واضح کیا ہے کہ میں نے تقریب میں خطاب سے معذرت کر لی تھی لیکن جب بعض تقریروں میں سیاسی بیانات دیے گئے تو پھر میں نے کسی ممکنہ غلط فہمی کا ازالہ کرنے کے لیے بات کی۔پریم کورٹ آف پاکستان کے پی آر او کی جانب سے جاری وضاحتی بیان میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی گولڈن جوبلی منانے کے لیے دعوت دی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ یہ دعوت قبول کرنے سے قبل معلومات حاصل کی گئی تھیں کہ کیا سیاسی تقریریں کی جائیں گی اور یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں کہ صرف آئین اور اس کے بنانے کے متعلق بات کی جائے گی جبکہ مجھے بھیجے گئے پروگرام میں اس کی تصدیق بھی کی گئی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ اس نکتے کی وضاحت میرے عملے نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی ڈائریکٹر سے کروائی اور پھر خود میں نے اسپیکر سے براہ راست بات کی اور اس کے بعد ہی دعوت قبول کی کیونکہ میں آئین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہتا تھا۔سپریم کورٹ کے سینئر جج نے کہا کہ مجھ سے پوچھا گیا تھا کہ کیا آپ تقریر کریں گے اور میں نے معذرت کر لی تھی لیکن جب بعض تقریروں میں سیاسی بیانات دیے گئے تو پھر میں نے بات کرنے کے لیے درخواست کی تاکہ کسی ممکنہ غلط فہمی کا ازالہ ہو سکے اور پھر بات کی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ امر باعث حیرت ہے کہ بعض لوگوں کو اس بات پر اعتراض ہے میں کہاں بیٹھا تھا یا میں نے آئین کی یاد منانے کے لیے تقریب میں شرکت کیوں کی تھی، میں ہال کے ایک کونے میں یا گیلری میں بیٹھنے کو ترجیح دیتا لیکن عدلیہ کے ایک فرد کی عزت افزائی کے لیے مجھے درمیان میں بٹھایا گیا، میں نے بیٹھنے کے لیے خود وہ جگہ نہیں چنی تھی۔سپریم کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ جب پاکستان کے پاس لوگوں کے براہ راست چنے گئے نمائندوں کا بنایا گیا آئین نہیں تھا تو ملک تقسیم ہو گیا تھا، اس مسلسل جاری غلطی کی اصلاح 50سال قبل کی گئی اور لوگوں کے بنیادی حقوق تسلیم کر کے آئین میں درج کیے گئے، اس لیے تمام پاکستانیوں کی نجات آئین کی پابندی میں ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ شہریوں کا بہترین مفاد اسی میں ہے کہ تقسیم کے بیج نہ بوئے جائیں اور آئین کا منایا جانا ہمارے تاریخ کے اہم ترین لمحات میں سے ہے جسے منانا ضروری ہے۔یہ معاملہ ابھی تک سوشل میڈیا کی زینت بنا ہو اہے۔

مزیدخبریں