عمران امین
اگر ہم وطن عزیز کے سیاسی میدان میں سرگرم ماضی کی سیاسی شخصیات کی بات کریں تو ہمیں تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ ان سیاسی رقیبوں کے درمیان ذہنی و نظریاتی خیالات میںواضع اختلاف موجود تھا اور بعض معاملات میں مشرق اور مغرب والا معاملہ تھا مگر اخلاقی طور پر اُن افراد کا قد بہت بلند تھا۔ہم ان کے بینک اکاﺅنٹس میںبلین تک رقم نہیں دیکھتے سوائے چند بڑے زمین دار اور کاروباری افراد کے باقی سارے چند ملین تک کے مالک تھے۔ان اعلیٰ کردار افراد میں مولانا مودودی،باچا خان،شاہ احمد نورانی،اکبر بگٹی،خیر بخش مری،جی ایم سید،نوابزادہ نصراللہ خان،عطاءاللہ مینگل،اصغرخان اور دیگر احباب شامل تھے۔ان افراد کے نظریات اور سوچ میں زمین و آسمان کا فرق تھا اوراس فرق کی وجہ سے مختلف ادوار میںسیاسی جماعتوں اور رہنماﺅں کے درمیان سیاسی کشیدگی بھی عروج پر رہی مگر ان سیاسی قائدین میں سے کسی ایک پر بھی کرپشن کا الزام نہیں لگا۔ان سیاسی افراد کے خیالات سے اختلاف تو ممکن ہے مگر اخلاقیات کے جس بلند مقام پر یہ افراد کھڑے نظر آتے ہیں بد قسمتی سے وہاں پہنچنے کے لیے ہماری موجودہ سیاسی اشرافیہ سنجیدہ نہیں ہے کیونکہ اس اشرافیہ کے بینک اکاﺅنٹس میں ملین نہیں بلکہ کئی بلین رقم موجود ہے جبکہ ملک کی غریب عوام کی سسکیاں مہنگائی شور میں دبی ہوئی ہیں گیس،آٹا،چینی،پٹرول، خوردنی تیل اور چینی کی قیمتوں نے اس قوم کی چیخیں نکال دی ہیں۔سیاسی انارکی نے بدترین معاشی مسائل،اداروں میں تقسیم،عوام اور ریاستی اداروں میں بڑھتے فاصلوں نے ملک کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا یا ہوا ہے۔بد قسمتی سے ہر جماعت کی سیاسی قیادت ضد اور انا کے خول سے باہر آنے کو تیار نہیں بلکہ ان سیاسی افراد کی ذاتی مفادات نے مختلف ریاستی اداروں کو متنازعہ بنا ردیاہے ۔آج ہر فریق آئین پاکستان کی بالادستی کی بات کر رہا ہے مگر جب فیصلہ مخالف آجائے تو متاثرہ فریق کی جانب سے آئین اور عدالتوں پر اعتراضات شروع ہو جاتا ہے ۔یہ سچ ہے کہ ہماری سیاسی تاریخ کی طرح عدالتی تاریخ کبھی قابل فخر نہیںرہی اور ماضی میں چند عدالتی فیصلوں نے ملک کی تقدیر پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں جن میں ذوالفقار علی بھٹو کا پھانسی کیس،جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین اقدامات کو آئینی تحفظ دینا اورنواز شریف کی ناہلی والے فیصلے سرفہرست ہیںمگر ان سب فیصلوں کے باوجود ہماری عدالتی تاریخ کے چند ناموں کی کاکردگی قابل تعریف ضرور ہے کہ آمر کے خلاف کھڑے رہے اور مختلف سیاسی ادوار میںمشکل سیاسی مقدمات پر انصاف پر مبنی اچھے فیصلے دئیے اگرچہ اس وقت سپریم کورٹ کے معزز جج حضرات کے فیصلوں میں اختلاف رائے نظر آرہا ہے مگر اُمید کی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان ان اختلافات کو باہمی مشاورت سے جلد ختم کر لیں گے۔
اگرچہ پی ڈی ایم حکومت ایک سال کا عرصہ مکمل کر چکی ہے مگر ابھی تک ملک میں سیاسی ہم آہنگی نظر نہیں آتی اور بے یقینی کی صورت حال بدستور قائم ہے جس کی شاید واحد وجہ پی ٹی آئی کی سینئرقیادت کے غلط اور بے محل اندازے اور فیصلے تھے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور پی ڈی ایم حکومت آنے کے فوراً بعد سے عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ اور عدالتوں سے بہت سی توقعات وابستہ کر لی تھی۔ 2018ءکے الیکشنز کے بعدسے مختلف مواقع پرجس طرح پی ٹی آئی حکومت کو ریاستی اداروں کی سپورٹ رہی تھی۔حکومت کے جانے کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان ریاستی اداروں سے اسی طرح کی سپورٹ ایک بار پھر سے مانگ رہے تھے۔ابتدا میں انہوں نے حکمران جماعت سے سوائے الیکشن کے کسی بھی قسم کی بات کرنے سے انکار کیامگر اقتدار سے محرومی کے ایک سال کے بعدمایوس ہوکر عمران خان نے ایک بار پھر یوٹرن لیا ہے اور خواہش کا اظہار کر دیا کہ وہ سب سیاسی رقیبوں کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہیںحتیٰ کہ نواز شریف کی واپسی اور ایک ہی تاریخ پر الیکشن کروانے پر بھی بات چیت کا عندیہ دیا گیا ہے۔پی ٹی آئی کی قیادت پچھلے ایک سال کے عرصے میں اس بات کو سمجھ گئی ہے کہ جب سب آپشنز بند ہوجائیں تو راستے کھلتے ہیں اور وہ راستے دائیلاگ کے ذریعے ہی کھلتے ہیں۔ہماری سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ 73ءکے آئین کی تشکیل سے پہلے ساری سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں تھی ،دہشت گردی کے خلاف قانون سازی پر بھی مختلف سیاسی جماعتیں اپنا اپنا الگ موقف رکھتی تھی،اٹھارہویں ترمیم پر بھی سیاسی جماعتیں بات چیت کرنے پر رضا مند نہ تھی مگر سب سیاسی اختلافات کے باوجود پاکستان کو 73ءکا آئین بھی مل گیا،دہشت گردی کے خلاف مضبوط پالیسی بھی بن گئی اور اٹھارہویں ترمیم بھی منظور ہوگئی۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب معجزے کیسے ہوئے؟۔یہ سب تب ممکن ہوا جب سیاسی جماعتوں نے مل کر بات چیت کی اور مذاکرات کے بعد ملک و قوم کی فلاح کے لیے قانون سازی کی۔آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں آصف علی زرداری نے بھی ڈائیلاگ کی بات کی اور کہا کہ اس وقت تمام مسائل کا حل ڈائیلاگ میں پوشیدہ ہے۔ماضی قریب میں سیاسی جماعتوں کے درمیان ڈائیلاگ والی بات کا اظہار سپریم کورٹ کی جانب سے بھی کیا گیا تھا۔اس نازک صورت حال میں سابق صدرآصف علی زرداری کی جانب سے ایک صائب رائے سامنے آئی ہے اور اب نون لیگ اور پی ٹی آئی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو آگے بڑھائیں اور ملک و قوم کی قسمت سے کھیلنے کی بجائے سنجیدہ اقدامات کریں۔ GIVE AND TAKE IS THE ONLY SOLUTION TO ELIMINATE CURRENT WORST POLITICAL SITUATION.