درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو!

Apr 13, 2023

لقمان شیخ


لقمان شیخ............روبرو
کینسر اب لا علاج مرض نہیں رہا لیکن کینسر کا سن کر انسان کا دل دہل جاتا ہے. میرے ایک عزیز دوست کے بھائی کو کینسر ہوا تو انھوں نے اس مرض سے لڑنے کا فیصلہ کیا اور علاج کے لئے شوکت خانم ہسپتال کا انتخاب کیا . جب میں نے ہسپتال کا وزٹ کیا تو معلوم ہوا کہ ہسپتال کے متعلق جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا وہاں بالکل ویسا ہی صاف شفاف ماحول دیکھنے کو ملا. ہر چیز Systematic ہے. مریض کے ٹوکن سے لے کر ڈاکٹر کے چیک اپ تک ہر چیز میرٹ پر ترتیب دی گئی ہے. اگر مریض کا کیس ابتدائی مرحلے پر ہو عمر بھی زیادہ نہ اور وہ اتنی سکت رکھتا ہو کہ کینسر سے لڑ سکتا ہے تو شوکت خانم والے مریض کو زندگی کی کرن دکھا دیتے ہیں. وہاں کے ڈاکٹرز مریض کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لاتے ہیں، شوکت خانم کا صاف ستھرا ماحول مریض کو پھولوں کی مانند خوشبودار محسوس ہوتا ہے. سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر آپ کینسر کے مرض سے لڑنے کے لئے پیسے کی استطاعت نہیں رکھتے تو شوکت خانم والے آپکا علاج مفت کرتے ہیں چاہے علاج پر کروڑوں روپے خرچ ہوں مریض کی جیب سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوتا. اور مریض کے ٹھیک ہونے کے بعد اگر اگلے پانچ سال میں کینسر کے اثرات نمودار ہوں جائیں تو بھی شوکت خانم مفت علاج کرتا ہے.
ہسپتال کے بانی عمران خان اپنے پیغام میں کہتے ہیں کہ شوکت خانم ہسپتال بنانے کے تجربے نے مجھے سکھایا ہے کہ اگر آپ ہار ماننے سے انکار کر دیں تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ متعدد ماہرین نے کہا کہ 75 فیصد مریضوں کو مالی امداد فراہم کرنے کا ہمارا ہدف ناممکن تھا لیکن میں نے اپنے مقصد پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا۔ بحیثیت قوم، ہم اپنے ملک سے کینسر کی لعنت کو ختم کرنے کی کوششوں میں متحد ہو گئے، اور ہم نے پاکستان میں کینسر کی معیاری دیکھ بھال تک مساوی رسائی کو حقیقت بنایا۔ آج، مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ لاہور اور پشاور میں ہمارے دونوں ہسپتالوں کو جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل (JCI) سے تسلیم کیا گیا ہے، جو ہمارے تمام مریضوں کے لیے دستیاب کلینکل ایکسیلنس کے اعلیٰ ترین معیار کا ثبوت ہے۔
گذشتہ سال ہم نے اپنی سہولیات میں 40,000 کے قریب مریضوں کا علاج کیا، ہمارے دونوں ہسپتالوں میں مریضوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمی کے ساتھ۔ لاہور میں ہمارا ہسپتال پہلے ہی زیادہ سے زیادہ صلاحیت کے ساتھ چل رہا ہے، 2021 کے دوران ریکارڈ تعداد 49,000 سے زیادہ کیموتھراپی کے سیشنز ہوئے۔ چونکہ کینسر کے علاج کے تمام بنیادی طریقے اب شوکت خانم پشاور میں بھی دستیاب ہیں، اس لیے آنے والے برسوں میں ہزاروں مریض ان خدمات سے اپنے گھروں کے قریب مستفید ہوں گے، یہ سب آپ کے فراخدلانہ تعاون کی وجہ سے ہوگا۔
 کراچی میں، ہم اپنے ڈائیگنوسٹک سینٹر اور کلینک میں کیموتھراپی کے ذریعے کینسر کا علاج فراہم کرتے رہتے ہیں، لیکن شہر میں ٹرشری کیئر کینسر سینٹر کی کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کراچی میں اپنا تیسرا، اور پاکستان کا سب سے بڑا، کینسر ہسپتال بنا رہے ہیں، جہاں ایک ہی چھت کے نیچے کینسر کی جامع دیکھ بھال سب کے لیے دستیاب ہوگی۔ اس ہسپتال کا تعمیاری کام تیزی سے جاری ہے اور سال 2023کے اختتام تک اسے مریضوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔ 
شوکت خانم ہسپتال ایک اسٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال ہے ، لوگ شوکت خانم پر اعتماد کرتے ہیں اسی لئے ہر سال ہمیں پہلے سے بھی زیادہ عطیات دیے جاتے ہیں۔جس طرح شوکت خانم میموریل ہسپتال انسانوں کا دکھوں کا مداوا علاج کے ذریعے کرتا ہے، اسی طرح ایک اور ایسا ادارہ ہے جو معاشرے میں پسپا ہونے والے بوڑھے انسانوں کی خدمت کر رہا ہے. وہ بزرگ لوگ جو گھر سے بے گھر ہو جاتے ہیں اور جن کے اپنے انھیں گمنام راہوں پر چھوڑ جاتے ہیں، جن کے سر سے گھر کا سایہ چھن جاتا ہے تو ایسے بے سہارا بزرگوں کو '' سایہ فاونڈیشن '' سہارا دیتا ہے. سایہ فاونڈیشن کی بنیاد کومل سلیم انسانیت کی خدمت کے لئے رکھی. کومل سلیم کے سایہ فاونڈیشن میں بے سہارا بزرگ لوگ بڑے اطمینان سے رہتے ہیں تین وقت کا کھانا کھاتے ہیں، انھیں ادویات ملتی ہیں اور انکی صحت کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے. ہمارے معاشرے میں والدین سے بد سلوکی کا عفریت پنپتا جا رہا ہے، جو نا فرمان اپنے والدین کو گھر سے بے گھر کرتے ہیں وہ تو اپنی آخرت خراب کر رہے ہیں لیکن کومل سلیم جیسے لوگ درد دل رکھتے ہوئے بے سہارا بزرگوں کو سہارا دے کر اپنی آخرت سنوار رہے ہیں. 
سندس فاونڈیشن بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے. انکے بانی مرحوم منو بھائی تھے. انھوں نے بچوں میں پیدا ہونے والے امراض بالخصوص تھیلسیمیا اور ہیمو فیلیا پر بھر پور کام کیا اور غریب لوگوں کے لئے مسیحاےبنے. انھی کے مشن کو آج یاسین خان آگے بڑھا رہے. یاسین خان سندس فاونڈیشن کے صدر ہیں اور دلجوئی سے انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں. ہمیں ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے. کیونکہ دنیا میں انسانیت کی خدمت ہی سے آخرت کی زندگی سنور سکتی ہے. اسی لیے خواجہ میر درد نے کہا کہ
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو 
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں

مزیدخبریں