’’ ون یونٹ‘‘کے خاتمے ا ور صوبوں کی بحالی کے بعد عام انتخابات کا انعقاد ہوا،بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی اکثریت حاصل کی، سندھ میں دیگر جماعتوں سے کچھ زیادہ جبکہ بلوچستان اورسرحد میں نیشنل عوامی پارٹی اور مولانا مفتی محمود(فضل الرحمان کے والد ) کی قیادت میں جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی) نے اکثریت حاصل کر لی۔ مشرقی پاکستان میں، شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں عوامی لیگ نے ملک کی فوجی تسلط والی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے باوجود ’’چھ نکات ‘‘کے ایجنڈے پر انتخاب لڑتے ہوئے بھاری اکثریت سے نشستیں حاصل کیں۔ اسطرح کہ عوامی لیگ قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت کے طور پر ابھری اور پیپلز پارٹی سب سے بڑی اپوزیشن ، بھٹو نے مغربی پاکستان کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہوئے وفاقی حکومت میں حصہ لینے کی کوشش کی جبکہ انہوں نے صرف پنجاب اور سندھ کے صوبوں میں بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کی تھیں۔ دوسری طرف بلوچستان اور سرحد میں جماعتیں شیخ مجیب الرحمن کی قیادت والی عوامی لیگ کی حمایت کر رہی تھیں۔
پنجاب میںغالب اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ، بھٹو نے پیپلز پارٹی کے رہنما ئوں کی ایک ٹیم کے ساتھ عوامی لیگ کے لیڈر شیخ مجیب سے چھ نکاتی ایجنڈے پر بات چیت کے لیے مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ کا دورہ کیا۔ شیخ مجیب کی دھان منڈی رہائش گاہ پر ان کا اور ان کے ساتھیوں کا استقبال کیا گیا جو’’ جئے بنگلہ‘‘ اور’’ بنگا بندھو‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے سینکڑوں لوگوں میں گھرے ہوئے تھے۔ بعد ازاں بھٹو نے پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ساڑھے 5 اور پونے چھ (5 ¾) نکات پر متفق ہیں۔ مجیب اتنے ہوشیار تھے کہ ان کی باتوں میںنہ آئے کیونکہ اس کا مطلب آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس سے پہلے ہی 6 نکاتی ایجنڈے پر واپس جانا تھا جو ڈھاکہ میں بنی قومی اسمبلی کی نئی عمارت میں منعقد ہونا تھا (جوکبھی منعقد نہیںہوا)!
اسی دوران بھارتی پشت پناہی میں مکتی باہنی، مشرقی پاکستان کے مختلف حصوں بشمول ڈھاکہ میں داخل ہو گئی اور جنرل نیازی کی قیادت میں پاکستانی مسلح افواج کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے بعد ہندوستانی فوج کے جنرل اروڑہ نے مشرقی پاکستان کے ہندوستان کے کنٹرول میں آنے سے قبل ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کئے۔ خبروں کا مکمل بلیک آ ئوٹ تھا کیونکہ ملک میں مکمل ’’سنسر شپ ‘‘ تھا اور شہریوں کو پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کی طرف سے’ ’فتح یابیوں‘ ‘اور’ ’محافظوں‘‘ کے بھاشن دیئے جارہے تھے جب تک کہ بی بی سی نیوز سے سچائی معلوم ہونے سے پہلے عوام کو ریڈیو اورٹی وی کے ذریعے المناک سچائی کا پتہ نہ چل گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھٹو کے ان اعمال کو ملک میں دوسری جگہوں کی طرح بہت کم پذیرائی ملی۔ تاہم، وہ جلد ہی مسلح افواج کے اعلیٰ افسران کے ذریعے صدر اور چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر کے طور پر تعینات ہوگئے تھے جنہوں نے جنرل یحییٰ کو بے دخل کر دیا تھا۔ ویسٹ ونگ سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے باقی ماندہ ممبران نے مشرقی ونگ کے چند ارکان کے ساتھ مل کر آئین ساز اسمبلی بنائی( جسے بعد میں ڈاکٹر مبشر حسن نے ’’بالکل نیا پاکستان‘‘ کہا)اور ان میں سے کچھ کو بھٹو نے اپنی کابینہ کے ارکان کے طور پر منتخب کیا تھا۔
صدر اور’’ سی ایم ایل اے‘‘( سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر) ذوالفقار علی بھٹو نے آئین کی مسودہ ساز کمیٹی کو نامزد کرنے میں جلدی کرتے ہوئے ملک کے معاملات کو چلانے کے لیے ایک عبوری آئین نافذ کرتے ہوئے 24 رکنی کمیٹی تشکیل دی جوپہلے میاں محمود علی قصوری اورحفیظ پیرزادہ کی سربراہی میں مقننہ میں جماعتوں کے نامزد امیدواروں پر مشتمل تھی۔ جس نے اپنا پہلا اجلاس 22 اپریل 1972ء کو منعقد کیا اور 31 دسمبر 1972ء کو اپنی آئینی رپورٹ پیش کی۔ کمیٹی کے 24 ارکان میں سے5 نے اپنے اختلافی نوٹ کے ساتھ رپورٹ پر دستخط کیے۔
اس مسودے پر اسمبلی میں بحث ہوئی اور بالآخر اسے اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔ اس کی تمہید کے اختتامی پیراگراف میں اعلان کیا گیا ہے کہ’’ قومی اسمبلی میں نمائندوں کے ذریعے اس آئین کو اپنایا، نافذ کیااور خود کو دیا‘‘ یہ 12 اپریل 1973ء تھا۔ اس کے نفاذ کے چند گھنٹوں کے اندراندر، بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی جس نے 1970 ء کی منتخب اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کی تھی، نے اتفاق رائے کی پرواہ کیے بغیر ترمیم متعارف کرائی اور اسے نافذ کیا۔ اس کے بعد بلوچستان حکومت کی نیشنل عوامی پارٹی(NAP) تحلیل کی اور صوبہ سرحد کی مفتی محمود کی زیرقیادت مخلوط حکومت کے احتجاج میں استعفیٰ دے دیا گیا۔بدقسمتی سے ملک اور اس کی وفاقی اکائیوں کو بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے چلانے کی کوشش کی۔
جنرل ضیاء الحق جنہیں سنیارٹی میں نچلی سطح پر ہونے کے باوجود سی او اے ایس کے طور پر منتخب کیا گیا تھا، انہوں نے ، وزیراعظم بھٹو کو’’ حفاظتی تحویل ‘‘کا کہتے ہوئے حراست میں لے لیا اور 90 دنوں میں انتخابات کا وعدہ کیا جو تقریباً ایک دہائی کے بعد پوراہو سکا۔ اپنی آمریت کے دوران وہ ریفرنڈم سے صدرمنتخب ہوئے اور عوام نے اسلامی نظامِ سیاست کے لیے ’’ہاں‘‘ میں ووٹ دیا۔ گرچہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ 1973ء کے آئین کی دستاویز کو پھینک سکتے تھے، تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس کی بحالی پر رضامند ہونے پر اس کے آرٹیکل 62 میں زیادہ سے زیادہ ترمیم کر کے اسے بگاڑ دیا۔اگلے غاصب جنرل مشرف نے بھی مزید ترامیم نافذ کیں (جیسا کہ خواتین کی نمائندگی وغیرہ) یہاں تک کہ ان کی حکومت وکلاء تحریک کی وجہ سے ختم ہو گئی۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی تاریخ میں تمام غاصبوں کو اعلیٰ عدلیہ سے اپنا حکم مسلط کرنے کی منظوری ملی اور آخری ایک کو آئین میں ترمیم کی منظوری دی گئی۔
یہ منتخب جمہوری نظام کی واپسی تھی جس نے وفاقی حکومت اور مقننہ کے لیے یہ ممکن بنایا کہ 1973ء کے آئین میں موجود اگرچہ تمام نہیں بلکہ زیادہ ترترامیم اٹھارویں ترمیم کے نفاذ کے ذریعے ختم کر دی گئی تھیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے دولخت ہونے اور بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد حکمران اسٹیبلشمنٹ نے 1956 کے آئین کی طرح 1973 کے آئین کو نہیں پھینکا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے کہ پورے ملک میں اس کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی ہے۔
٭…٭…٭