آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر کیوں ہے؟

Apr 13, 2023

عاطف خالد بٹ

پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر کا قرض حاصل کرنے کے مسلسل ہاتھ پاؤں مار رہا ہے لیکن تاحال اس سلسلے میں کوئی ٹھوس پیشرفت نہیں ہوسکی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار بار بار اعلانات کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدہ جلد ہی ہونے والا ہے مگر وہ معاہدہ ہوگا کب، یہ کوئی نہیں جانتا۔ اس سلسلے میں عوام کے ذہنوں میں کئی طرح کے سوالات پیدا ہورہے ہیں جن کے جوابات اسحاق ڈار یا وزیراعظم محمد شہباز شریف کو دینے چاہئیں لیکن اس ملک میں عوام کے سامنے پہلے کون سا کسی معاملے کے حقائق لائے گئے ہیں جو اب حکومت کے جواب نہ دینے سے لوگوں میں بے چینی پیدا ہو جائے گی۔ لوگوں میں تو مہنگائی سے متعلق بھی جو بے چینی پیدا ہوتی ہے وہ قہرِ درویش بر جانِ درویش کے مصداق ان کی اپنی ذات تک ہی محدود رہتی ہے اور یہ بات ہماری سیاسی اشرافیہ اچھی طرح جان چکی ہے کہ اس ملک میں کچھ بھی کرلیا جائے عوام کی طرف سے کوئی ایسا ردعمل کبھی بھی سامنے نہیں آئے گا جس سے حکومت یا نظام کا وجود خطرے میں پڑ جائے۔
وہ رقم جس کے حصول کے لیے پاکستان کے حکمران پچھلے کئی مہینوں سے آئی ایم ایف کے در پر ماتھا رگڑ رہے ہیں اصل میں 2019ء میں پاکستان تحریک انصاف کے اپنے دورِ حکومت میں آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے چھے ارب ڈالر کے قرض کے معاہدے کی ایک قسط ہے۔ چھے ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج میں ایک سال بعد ایک ارب ڈالر کا اضافہ بھی کیا گیا تھا تو یوں اسے کل سات ارب ڈالر کی رقم کہا جانا چاہیے۔ پی ٹی آئی حکومت پر موجودہ حکمران اتحاد کی طرف سے یہ اعتراض مسلسل کیا جارہا ہے کہ اس نے بیل آؤٹ پیکیج حاصل کرنے کے لیے بہت سخت شرائط مان لی تھیں اور بعد جب عمران خان نے دیکھا کہ ان کی حکومت جارہی ہے تو انھوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے معاشی فیصلے کیے جن کی وجہ سے ایک طرف آئی ایم ایف ناراض ہوگیا تو دوسری جانب حکمران اتحاد کی قوت اور توانائی کو نگلنے کے لیے ایک عفریت بے قابو ہوگیا۔ خود پی ٹی آئی کے رہنما بھی اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ ہم نے نئی حکومت کے لیے ’بارودی سرنگیں‘ بچھائی تھیں۔
اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف جب کسی ملک کو قرضہ دیتا ہے تو وہ اکیلا ہی اس کے ساتھ معاملات طے نہیں کرتا بلکہ اس کے ایما پر دیگر کئی بین الاقوامی اور عالمی ادارے سے بھی اس ملک کی دست گیری کے لیے کردار ادا کرتے ہیں۔ عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور ایسے ہی کئی اور اہم ادارے آئی ایم ایف کی ہدایات کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کسی بھی ملک کے ساتھ معاملات کو کیسے اور کتنا آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ اب اگر پاکستان کو آئی ایم ایف کی طرف سے قرضے کی قسط نہیں مل رہی تو دیگر ادارے بھی اس حوالے سے ہماری یاوری نہیں کرسکتے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ آئی ایم ایف امریکا اور دیگر مغربی ممالک کے کہنے پر بہت سے، زیادہ تر یا تمام فیصلے کرتا ہے، اور اس کی تازہ ترین مثال آئی ایم ایف کا یوکرائن کو دیا جانے والا قرضہ ہے جو اس اعتبار سے اپنی نوعیت کا واحد قرضہ ہے کہ یہ ایک ایسے ملک کو دیا جارہا ہے جو جنگ میں الجھا ہوا ہے۔ صاف ظاہر ہے یہ قرضہ یوکرائن کی حیثیت کو سامنے رکھ کر نہیں بلکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ایما پر دیا جارہا ہے۔
 آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ اس وقت جو سلوک کررہا ہے اس کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس کے پیچھے بھی امریکا ہی ہے کیونکہ حالیہ برسوں میں پاکستان نے ایسے بہت سے اقدامات کیے جو امریکا کے لیے قابلِ قبول نہیں ہیں۔ اسی طرح عالمی سطح پر چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ جہاں امریکا کے لیے اضطراب کا باعث بن رہا ہے وہیں اس کی وجہ سے امریکا ایسے ممالک سے مزید بگڑ رہا ہے جو چین کی مستحکم ہوتی عالمی حیثیت کے لیے کچھ نہ کچھ مثبت کردار ادا کررہے ہیں۔ اس معاملے میں پاکستان کا زیرِ عتاب آ جانا سامنے کی بات ہے کیونکہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں جو ممالک چین کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوں گے پاکستان ان میں سے ایک ہے اور یہ منصوبہ چین کی معاشی قوت میں اضافہ کر کے اسے ایک ملک کے طور پر سامنے لارہا ہے جو امریکا کی سپر پاور والی حیثیت کے لیے چیلنج بن گیا ہے۔
اس صورتحال میں پاکستان کی طرف سے مسلسل یہ کوشش کی جارہی ہے کہ کسی بھی طرح امریکا کو راضی کر کے آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط جتنی جلد ممکن ہوسکے لے لی جائے لیکن حالات یہ بتارہے ہیں کہ فوری طور پر یہ معاملہ طے نہیں پائے گا اور جب تک پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہیں ہوتا تب تک دیگر اداروں اور دوست ممالک کی طرف سے بھی پاکستان کو کوئی ایسا سہارا نہیں مل سکے گا جس کی مدد سے وہ اپنے سر پر لٹکتی ہوئی دیوالیہ پن کی تلوار ہٹا سکے۔ ادھر، آئی ایم ایف بھی مسلسل یہی کہہ رہا ہے کہ دوست ممالک ضمانت دیں گے تو وہ پاکستان کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھائے گا لیکن دوست ممالک بوجوہ اس سلسلے اپنا سارا وزن پاکستان کے پلڑے میں نہیں ڈال رہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری اپنی ہی کرنیوں کی وجہ سے دنیا ہم سے بیزار ہے اور ہم کیونکہ سدھرنا نہیں چاہتے اس لیے دنیا ہم پر مزید اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔

مزیدخبریں