یہ حسین یادوں سے بھری کتھا ایک ایسے شہرکی ہے، جس کی خاک میں میری جوانی کے دس قیمتی سال دفن ہیں۔اپنی یادداشت میں نقش ونگار،عمارت کاری، رسوم ورواج، روایات اورپرانی محفلوں کوساتھ لیے ، مَیں اس پرہجوم شہرکے النگ سے گزرا تھا تاکہ اس کے حسن کوتمام جزئیات کے ساتھ جذب کرسکوں۔ میرا مشاہدہ بڑا عمیق تھا، لیکن کیا کریں اس دوران میں ماہ وسال کے کئی ریلے چپکے سے گزر گئے ہیں۔ بس کچھ یادیں باقی رہ گئی ہیں۔جیسے شاعرِمشرق نے ہائیڈل برگ کے بارے میں یادوں کی راکھ کریدتے ہوئے اپنی جرمن ٹیوٹر ایماویگاناسٹ کے نام خط میں لکھا تھا:’’میں اپنی ساری جرمن زبان بھول چکا ہوں،لیکن مجھے اس کا ایک لفظ اب بھی یادہے اوروہ تمھارا نام ہے یعنی ’’ایما‘‘۔ اتنے سال گزرنے کے بعد مجھے بھی اس شہرکی صرف ایک دوشیزہ یادہے، جسے ایک تقریب میں دیکھ کرمیرے منہ سے بے ساختہ ’’سبحان اللہ‘‘نکلا تھا۔ اور اس نے ’’چشم بددور‘‘ کہہ کراپنامنہ دوسری جانب پھیرلیا تھا۔ پھرایک روزاسی دوشیزہ نے خاموش ہونٹوں پرلرزاں اداسی کے ساتھ میرابازو تھام کر کہا تھا۔ ’’حافظ شیرازی اپنے محبوب کے گال کے تل کے بدلے میں ثمرقندوبخارا بخشنے کوتیارتھااورتم اپنے ترک شیرازی کے لیے اس شہرمیں چندسال اورقیام بھی نہیں کر سکتے؟‘‘۔ شعر کچھ یوں ہے:
اگرآں ترک ِ شیرازی بدست آرد دلِ ما را
بخال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را
ترجمہ: اگر وہ ترک محبوب میرا دل تھام لے تو میں اس کے گال کے تل کے بدلے میں سمرقنداور بخارا(دونوں شہر) بخشنے کے لیے تیار ہوں۔
سنا ہے جب یہ شعر امیر تیمور تک پہنچا تو اس نے شاعر کو بلا کر سرزنش کی۔’’کیوں بھئی! ان دونوں شہروں کا حاکم تو میں ہوں۔تم کون ہوتے ہو کسی کو عطا کرنے والے؟‘‘۔ تو شاعر نے مودبانہ انداز میں سر جھکا کر عرض کی ،’’آقا! اگرمیں اتنا ہی عقل مند ہوتا تو یوں گلیوں میں بیکار پھرتا‘‘۔یوں شاعروں کا یہ امام بڑی سزا سے بھی بچ گیااور انعام واکرام کا حق داربھی ٹھہرا۔ اسی خانمِ خوش گِل کے بارے میں میرے نوے سالہ رقیب اورعہدسازشاعر ظفراقبال نے ایک شعرکہاتھا:
ذاکرہ تھی کوئی اور خوب رلاتی تھی ظفر
مجلسیں پڑھتی تھی جب دل کے عزاخانے میں
اس پرہجوم شہرکے بارے میں حضرت امیرخسرو کاایک شعر بھی سن لیجیے:
آہستہ پا بنہ کہ ملک سجدہ می کند
ملتان ما بہ جنت اعلیٰ برابراست
مبشرسعید کا تعلق اسی ملتان سے ہے جس کے مکینوں کے لہجے میں وہاں کے سوہن حلوے کی سی حلاوت اورمٹھاس ہے۔ ہزاروں سالوں کی تاریخ جس کی گلیوں اور النگوں پر رقم ہے۔ان سے پہلی ملاقات کہاں ہوئی،یادنہیں۔میرے جگری دوست فرتاش سیدمرحوم کے ہمراہ کسی مشاعرے میں،یارطرح دارکاشف مجید کے اوکاڑا والے گھر میں یا کسی نجی محفل میں آرائشِ خم کاکْل کے عمل کے دوران میں ان کا مسلسل دیدارکرتے ہوئے۔استادابراہیم ذوق نے بالکل درست کہاتھا:
خط بڑھا زلفیں بڑھیں کاکل بڑھے گیسو بڑھے
حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے
شاعر شاعری سے جاتا ہے ’’مشاعرہ گردی‘‘ سے نہیں جاتا۔اپنی ادبی پہچان کیلئے ابتدا میں تو سبھی شعرا مشاعروں میں شریک ہوتے ہیں۔تھوڑے بالغ نظر ہوئے تو کہیں کہیں رسائل وجرائد میں جھلک پڑے۔ اس سے بھی آگے کے منطقے عبور کرتے گئے۔مطالعاتی جہتوں سے اپنے فکروتفلسف کے آفاق کووسیع کیا۔ بعض شعرا تمام عمر ایک ہی کام کیلئے خود کومختص کردیتے ہیں۔یعنی آپ ہمارے مشاعرے میں کتنے شاعر لائیں گے؟،ہم آپ کے مشاعرے میں اتنے شاعر لائیں گے۔یوں شعروشعری ہوتے ہوتے صبح ہوجاتی ہے۔شعروسخن کا جنون اپنی جگہ لیکن پاس وضع بھی کوئی شے ہووے ہے۔مبشر سعید کے ہاں ایک واضح ارتقا دکھائی دیتا ہے۔وہ منتخب مشاعروں میں شریک بھی ہوتے ہیں اور ہم نے ان کاکلام پاک وہند کے مستند ادبی رسائل میں شائع ہوتے بھی دیکھا ہے۔اب اس سے اگلے مرحلے میں انھوں نے ایک جامعہ سے منسلک ہوکر پرورشِ لوح وقلم کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ اس نوع کی ادبی خدمت کے اثرات تو نسلوں تک محسوس ہوتے ہیں۔
رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوق
اولاد سے توبس یہی دوپشت چارپشت
مبشر سعید کااولین شعری مجموعہ شائع ہوا تو سنجیدہ ادبی حلقوں میں ان کی ایک الگ پہچان بناگیا۔اس شاعری کے بطون میں عشق ومحبت کی جنوں خیزیوں کے ساتھ صوفیوں اورسنتوں کے فکروفلسفے کی ایک ہلکی سی لہر بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ایک شعر تو ان کی پہچان ہی بن گیا۔
تو نہیں مانتا مٹی کا دھواں ہو جانا
تو ابھی رقص کناں ہوکے دکھاؤں تجھ کو۔
خواب سرا کے بھید مبشر کادوسرا شعری مجموعہ ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ انھوں نے’’یعنی آگے چلیں دم لے کر‘‘کے مطابق کچھ دیر آرام کے بعد ایک دفعہ پھر مہرسکوت کو توڑا ہے۔کتاب میں مستند ارباب فن کی آرا موجود ہیں۔’’خواب سرا کے بھید‘‘کی غزلوں کا مطالعہ لفظوں کی ایک ایسی طلسم ہوش ربا میں لے جاتا ہے جس میں داخل ہونے کے تو متعدد دروازے ہیں لیکن واپسی کارستہ نہیں۔شاعر نے بڑی مہارت سے شاعری کے مختلف عناصر وجواہر کوایک خاص ترکیب سے باہم آمیز کرکے دل کی باتیں کہی ہیں۔پہلے شعری مجموعے سے دوسرے مجموعے تک کے سفر میں مبشر کے ہاں ایک واضح فکری ارتقا دکھائی دیتا ہے۔یہ غیرمنقش پہیے کی طرح ایک دائرے میں گھومنے والی شاعری نہیں بلکہ اس کی جہتیں افقی اورعمودی طور پر محسوس ہوتی ہیں۔'' خواب سرا کے بھید'' کی شاعری نئی نسل کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔البتہ اس میں وہ باغیانہ لب ولہجہ نہیں جو نسل نو کے ہاں نظرآتا ہے۔اس کی وجہ ہمارے شاعر کی فکری تربیت میں موجود شہر اولیا کا وہ مخصوص صوفیانہ ماحول ہے جو محبت اور اخوت سے رچابسا ہوا ہے۔’’خواب سراکے بھید‘‘محبت کے مطاہر جذبات کا مرقع ہے۔اس کے موضوعات الگ ہیں۔اس مجموعہ غزل میں خوب صورت اشعار قاری کی توجہ اپنی جانب منعطف کرتے ہیں۔
اے کئی دن سے مرے ذہن پہ چھائے ہوئے شخص
تو مجھے وصل کے سپنے نہ دکھا میری طرح
جب اداسی مرے اعصاب پہ چھا جاتی ہے
میں سخن تک نہیں کرتا تری تصویر کے ساتھ
میں اگر پھول کی پتی پہ ترا نام لکھوں
تتلیاں اڑ کے ترے نام پہ آنے لگ جائیں