جو لوگ پاکستان کی سیاست اور معیشت پر گہری نظر رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جب تک پاکستان میں سیاسی استحکام پیدا نہیں ہوگا پاکستان کی معیشت اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہو سکے گی اور ہم قرض کی بھیک ہی مانگتے رہیں گے۔
1990ء کی دہائی میں منموہن سنگھ بھارت کے وزیر خزانہ تھے انھوں نے بھارت کی مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان ’میثاق معیشت‘ کرایا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج بھارت دنیا کی پانچویں معاشی طاقت بن چکا ہے اور تین چار سال کے عرصے میں بھارت دنیا کی تیسری معاشی طاقت بن جائے گا۔ پاکستان میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کے مرکزی لیڈر عمران خان قومی ڈائیلاگ کے مخالف رہے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ جن لوگوں نے پاکستان کی قومی دولت کو لوٹا ہے اور اور قومی سرمایہ منی لانڈرنگ کے ذریعے دنیا کے دوسرے ملکوں میں لے گئے ہیں ان سے مذاکرات نہیں کیے جا سکتے۔ جیل میں کم و بیش ایک سال گزارنے کے بعد عمران خان آخر کار لچک کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور انھوں نے قومی ڈائیلاگ پر اتفاق کیا ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان کی معیشت کو سنبھالا نہ گیا تو پاکستان کے 25 کروڑ عوام کی مشکلات میں اذیت ناک اضافہ ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے بھی مذاکرات کی نوید سنائی ہے۔
اللہ کرے کہ پاکستان کے سیاستدان سیاست، معیشت اور دہشت گردی کے بارے میں قومی ڈائیلاگ کر کے قومی اتفاق رائے کی پالیسی تشکیل دے سکیں کیونکہ پاکستان’اب نہیں تو کبھی نہیں‘ کے مرحلے پر پہنچ چکا ہے۔ جو لوگ قومی ڈائیلاگ کی مخالفت کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ لٹیروں سے مذاکرات نہیں ہوسکتے ان کا موقف آئیڈیل تو ہو سکتا ہے مگر پاکستان کے زمینی حقائق اور مستقبل کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے۔
پاکستان کے پاس وقت نہیں ہے کہ قومی لٹیروں کے جانے اور ’فرشتوں‘ کے آنے کا انتظار کیا جائے۔ کرپشن بھارت میں بھی موجود ہے مگر بھارتی لیڈروں نے حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی اتفاق رائے سے معاشی ترقی کا راستہ نکالا ہے۔ پاکستان کے لیڈروں کو بھی سیاسی بصیرت اور بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتفاق رائے سے پاکستان کی معاشی ترقی کی ٹھوس اور پائیدار بنیادیں رکھنی چاہئیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے سیاسی محاذ ارائی سے اپنا نقصان تو کر لیا ہے مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکا اور پاکستان مسلسل زوال کا شکار ہے۔ عوام کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کاش پاکستان کو چار اہم ترین منصب دار صدر پاکستان، وزیراعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف ایسے مثالی افراد مل سکتے جو اشرف المخلوقات کے مقام پر کھڑے ہوتے تو پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہو چکا ہوتا۔ پاکستان کے پاس اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہر نعمت موجود ہے بس مثالی قیادت کی کمی ہے۔ کاش پاکستان کو ایک اور قائداعظم مل جائے تو پاکستان پانچ سال کے اندر دنیا کا عظیم ملک بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
زندگی کے تجربات قدرت کی طرف سے عطا کی گئی حسیات بصارت، بصیرت، ادراک و انہماک اور مطالعہ و مشاہدہ کی بنا پر کچھ لوگ مستقبل بینی کی اتھارٹی بن جاتے ہیں۔ ان کی اس صلاحیت کو تیسری آنکھ کا نام دیا جاتا ہے۔ ہر آدمی کے پاس تیسری آنکھ ہوتی ہے جس سے وہ مستقبل میں جھانکنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمارے ہر دلعزیز پاکستان عوام دوست ہمسائے برادر محترم محمد امین بٹ اپنے رنگ کے بہترین آرٹسٹ اپنے انداز بیان کے شاعر اور کہانی نگار ہیں۔ ان کی عمر ماشاء اللہ 87 برس ہے۔ ان کی دونوں آنکھوں کی بینائی ختم ہو چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تیسری آنکھ کی صلاحیت سے نواز رکھا ہے-جس کی بناء پر وہ اپنی لائف انجوائے کر رہے ہیں۔ وہ کسی سہارے کے بغیر اکیلے اپنے گھر کے قریب مسجد میں پانچ وقت باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے پیدل جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنی دانشمند بیگم ریٹائرڈ پروفیسر( پولٹیکل سائنس) محترمہ نادرہ بٹ کی معاونت سے اپنی آپ بیتی جگ بیتی اور شاعری پر مشتمل ایک کتاب قلمبند کی ہے جس کا نام’تیسری آنکھ ‘ رکھا ہے۔ مختصر کالم میں حکمت و دانائی پر مشتمل اس کتاب کا احاطہ ممکن نہیں ہے۔ البتہ اس کتاب میں شامل اہم موضوعات کا تعارف ضرور کرایا جا سکتا ہے۔
محترم امین بٹ نے اپنی باشعور آنکھوں سے پاکستان کو بنتے دیکھا اور اپنے ہم عمروں کے ساتھ ’پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الااللہ‘، ’بٹ کے رہے گا ہندوستان، بن کے رہے گا پاکستان،‘ ’قائد اعظم زندہ باد‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ ’وہ صبح کبھی تو آئے گی‘ کتاب کا کلیدی باب ہے اور پاکستان کا نوحہ ہے۔ اس باب میں ہندو مسلم سکھ فسادات اور قتل و غارتگری کے ہیبت ناک واقعات شامل ہیں جن میں مصنف کے قریبی عزیز بھی شہید ہوئے۔ امرتسر میں مصنف کے والدین کا گھر ان چند گھروں میں شامل تھا جن پر مسلم لیگ کے پرچم لہراتے تھے۔ مصنف کے مطابق قیام پاکستان کے بعد کارکنان تحریک پاکستان کے خواب چکنا چور ہوئے۔ مصنف کے والدین ہجرت کرکے لاہور پہنچ گئے اور کشمیری بازار کے قریب وچھو والی گلی کے ایک مکان میں مقیم ہوگئے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ’ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ یہ کیسا پاکستان تھا لوگ ہندوؤں اور سکھوں کے چھوڑے ہوئے مکانوں سے چیزیں اٹھا کر بھاگ رہے تھے اور کہتے تھے’لوٹ لو یہ سب پاکستان کا مال ہے‘۔ جعلی الاٹمنٹ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دفتروں میں رشوت عام ہو گئی اور سفارش زندگی کا معمول بن گئی۔ عدالتوں میں انصاف سستے داموں بکنے لگا چار دیواری کی تمام دیواریں گر گئیں اور چادریں تار تار ہو گئیں۔ پولیس ڈاکو بن گئی اور لوگ خوف سے گھروں میں چھپ گئے۔ وقت گزرتا گیا وقت کبھی نہیں ٹھہرتا۔ لٹیرے لیڈر بن گئے اور پیسے کے زور پر ووٹ خرید کر اسمبلیوں پر قبضہ کر لیا، سیاست تجارت بن گئی مال لگاؤ مال بناؤ کا دور شروع ہوا۔ جاگیردار سرمایہ دار وڈیرے اور سرداروں نے عوام کی جہالت اور غربت کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا مذہبی رہنماؤں نے مذہبی منافقت کو فروغ دیا قانون مکافات کا عمل حرکت میں آیا تو آدھا پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ لوٹ مار کا سلسلہ قیام پاکستان کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا جو بدقسمتی سے آج بھی جاری ہے۔‘
مصنف اپنی کتاب کے باب’شمع یقین‘ میں نوجوانوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ بے حسی اور ناامیدی سے باہر نکلیں اور یقین محکم کی قوت سے ذاتی مفادات پر مبنی’سٹیٹس کو‘ کو تبدیل کرنے کے لیے انقلابی جدوجہد کا آغاز کریں۔ مصنف بڑے دکھ کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ہم نے اپنے اپنے مسلک کے لیے قرآن کی تعلیمات کو بھی فراموش کردیا ہے جو ہمارا مرکز اور محور ہونا چاہیے تھا۔ کتاب میں محترم محمد امین بٹ اور محترمہ نادرہ بٹ کی خوبصورت اور خیال افروز نظمیں شامل ہیں۔ فیض نے خوب کہا تھا:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
٭…٭…٭