بیرونی قرضے اور ہمارے انسانی و قدرتی وسائل

اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار قیمتی انسانی اور قدرتی وسائل سے نوازا ہے لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ان سے بھر پور استفادہ کرنے کی بجائے ملکی معیشت کو چلانے کیلئے ہمیشہ بیرونی قرضوں کا سہارا لیا ہے۔ اور آج صورتحال یہ ہے کہ ہم قرضوں کے دلدل میں بْری طرح پھنس چکے ہیں اور ان قرضوں کی ادائیگی کرنا ہمارے بس سے باہر ہوچکا ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہم تو قرضوں پر لگنے والے "سود کی رقم" کو واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور اس "واجب الاداسود" کو دینے کیلئے بھی قرضہ پہ قرضہ ہی حاصل کررہے ہیں یعنی ہم "قرضہ در قرضہ در قرضہ"کے خطرناک جال میں پھنس چکے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے مالیاتی اور معاشی ٹیم کے ماہرین سخت شرائط پر حاصل کیے جانیوالے بیرونی قرضوں کو بھی اپنی "کامیاب حکمت عملی"قرار دیتے ہیں اور یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ ملک کی معیشت پر پڑنے والے قرضوں کے نا قابلِ برداشت بوجھ کی وجہ سے عوام "مہنگائی کی سونامی" میں ڈوب رہے ہیں جبکہ غربت اور بے روزگاری کا گراف ریکارڈ حد سے بھی اْوپر جا چکا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ پر جہاں آئے دِن بجلی ، گیس پٹرول ، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے وہاں ٹیکسوں میں اضافے نے عام آدمی کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ یہاں پر بر سراقتدار آنے والی ہر حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہم ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے مجبوراً قرضے لے رہے ہیں اور یہ ڈائیلاگ کہ اشیائے ضرور یہ اور توانائی کی قیمتوں میں جو اضافہ ہو رہا ہے اس کا "عام آدمی "پر کوئی اثر نہیں پڑیگا جبکہ عوام دکھی دل کے ساتھ حیران ہیں کہ وہ "عام آدمی "کون سا ہے جس پر مہنگائی کا اثرنہیں پڑے گا ؟ جب ہمارے حکمران اللہ کے عطا کردہ قیمتی وسائل سے استفادہ نہیں کرینگے اور صرف عوام کو بار بار قربانی کا بکرا" بنائیں گے تو ملک کیسے چلے گا۔ آپ گزشتہ دس سالوں کے دوران صرف بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو لے لیں، حقیقت حال سب کے سامنے آجائے گی۔ بجلی پیدا کرنے والے اداروں"آئی پی پیز" نے نیپرا کے تعاون سے بجلی کے نرخوں میں جس قدر اضافہ کیا ہے اس سے اب عوام پریشان ہیں کہ وہ روٹی کھائیں یا بجلی کے بل ادا کریں علاوہ ازیں گیس کے نرخوں میں حالیہ ریکارڈ اضافے نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ عوام کو رگڑا لگانے کے باوجود بھی بجلی اور گیس کے گردشی قرضوں میں ناقابلِ برداشت اضافے کی وجہ ملک کی "معیشت کی چولیں " ہل چکی ہیں اور "اصلاح احوال "کیلئے حکومت ملک کے "بہترین مفاد"میں پھر قرضے لے رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے ایک ارب 10کروڑ ڈالر کے قسط کی منظوری پر "خوشی کے شادیانے بجارہی ہے اور آئیندہ کی "حکمت ِ عملی"کے تحت آئی ایم ایف سے مزید 6سے 8ارب ڈالر کے طویل المعیاد پروگرام حاصل کرنے کی نوید سنا رہی ہے۔ نہ جانے وہ "سورج کب طلوع" ہوگا جب ہم "قرضوں کی مے"کو چھوڑ کر اپنے وسائل سے بھر پور استفادہ کرنے کا عملاً پروگرام بنائیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے پاس نوجوانوں پر مشتمل بھر پور انسانی وسائل اور معدنیات کی دولت موجود ہے۔ عوام کی یہ صائب رائے ہے کہ ملک میں "سونے اور دیگر قیمتی معدنیات کے وسیع ذخائر ہونے کے باوجود غیر ملکی قرضوں کے سہارے ملک معیشت کو چلانے کی کوئی " ْْْتْگ"نہیں ہے ۔افسوس صد افسوس کہ ہمارے ہر دور کے حکمرانوں نے قرضوں کے حصول کو ہی اپنا پسندیدہ مشغلہ بنائے رکھا حالا نکہ "سیانے "کہتے ہیں کہ قرض مانگنے والے"کی اس دنیا میں "ٹکے کی بھی عزت"نہیں رہتی۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ہمارے حکمران ہمہ وقت عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کے سامنے اپنا "کشکول گدائی " پھیلائے رکھتے ہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ 70 سالوں سے مسلسل جاری ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہر دور کے حکمرانوں کے دورے زیادہ تر اْن ممالک کے ہوتے ہیں جہاں سے "قرضوں کے خیرات "ملتی ہے۔ کیا ہمارے حکمرانوں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ ان قرضوں کو آ خر کس طرح واپس ادا کرنا ہے؟ دوسری طرف آپ نے کبھی عوام کو حقیقتاً ریلیف دینے کا بھی کبھی سوچا ہے ؟  آپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عوام کو جو سہانے خواب دکھائے تھے اس کا آپ کو کچھ پاس ہے ؟ تکلیف دہ امر ہے کہ ملک میں مہنگائی ، غربت اور بے روزگاری ریکارڈ حد تک بڑھ رہی ہے جبکہ بیرونی سرمایہ کاری، بر آمدات، صنعتی ، تجارتی اور زرعی پیداوار کا گراف مسلسل گر رہا ہے، زرِمبادلہ کے ذخائر صرف قرضوں سے حاصل ہونے والی رقوم سے مختصر مدت کیلئے عارضی طور پر بڑھتے ہیں اور پھر وہی "ڈھاک کے تین پات"۔ ایک دن سٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ تیزی اور اگلے دن "دھڑن تختہ"۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم "فرضی اعدادوشمار "جاری کرنے کے فن میں "کمال مہارت"رکھتے ہیں کیونکہ "جگاڑ"لگا کر ہم اپنے فرضی ترقیاتی گراف کو اوپر کی طرف سے ہی رکھتے ہیں ویسے بھی ہم چیک اینڈ بیلنس "اور خو د احتسابی کے فارمولے کو سر ے سے ہی نہیں مانتے ، ہمارے سیاست دانوں نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفاد اور مالی بدعنوانیوں "پر کسے جانے والے نیب کے شکنجے کو توڑنے کیلئے اس قومی ادارے کا " پٹرا"کرنے کے منصوبے بنائے اور دوسری طرف خسارے پر چلنے والے قومی اداروں کے انتظامی اور مالیاتی امور کو درست کرنے کی بجائے یہ انکی نج کاری کر کے ان سے جان چھڑانے کی چکروں میں ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال پی آئی اے کی ہے جو دینا کی نمبر ون ائیر لائن تھی جس کا ہمارے حکمرانوں نے اپنے سیاسی مفادات حصول کیلئے کباڑہ کر دیا۔ یہی حال پاکستان سٹیل ملز کا ہے لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ ہمارے ہر حکمران نے اپنے اپنے دور میں کئی نئے ادارے، محکمے ، اتھارٹیز اور کمیشن بنانے کا سلسلہ جاری رکھا جس سے اربوں روپے کی "قیمتی قومی دولت "بھی ضائع ہوتی رہی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے سیاست دان یہ "کھیل تماشا"بند کریں اور اس ملک میں امن و امان کی بحالی ، دہشت گردی، فرقہ واریت، علاقائی تعصب کے خاتمے ، عام آدمی کو فوری انصاف کی فراہمی، مہنگائی بے روزگاری غربت کے خاتمے، زرعی صنعتی اور تجارتی شعبے کی ترقی ، سرمایہ کاری اور برآمدات میں اضافے ، اپنی شاہانہ مراعات ختم کرنے اور ہر سطح پر بچت کو فروخت دینے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کریں۔ حکمران یہ بات یاد رکھیں کہ اللہ کے عطاء کردہ انسانی اور معدنی وسائل سے بھر پور استفادہ نہ کرنا یقینا "کفران نعمت"ہے۔ پاکستانی قوم حیران بھی ہے اور پریشان بھی ہے کہ ملک میں بیش قیمت سونا نکل رہا ہو اور ملک پھر بھی"کنگلا "ہو۔ اس سوال کا جواب اگر کسی کے پاس ہے تو وہ عوام کو بھی آگاہ کردے۔

ای پیپر دی نیشن