نومنتخب ارکان سینٹ کی حلف برداری اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے مراحل بخیر و خوبی سرانجام پا گئے جس کے ساتھ ہی عیدالفطر سے ایک روز قبل موجودہ منتخب جمہوری سیٹ اپ کی تکمیل ہو گئی۔ اس طرح قوم کو عید کا تحفہ جمہوریت کے تسلسل و فروغ کی صورت میں ملا۔ سلطانیء جمہور کا گزشتہ ساڑھے پانچ سال کا عرصہ ملک اور عوام اور اسکے ساتھ ساتھ سسٹم کیلئے جن آزمائش کن مراحل سے گزرا ہے‘ اسکے پیش نظر آج بھی سسٹم کی بقاء و استحکام اور عوام کے صبر و برداشت کو متعدد چیلنجز درپیش نظر آرہے ہیں جو حکومتی‘ سیاسی‘ مذہبی اور ادارہ جاتی قیادتوں سے وسیع النظری اور فہم و بصیرت سے کام لینے کے متقاضی ہیں جبکہ ہمارے اندرونی اور بیرونی دشمنان ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کے موقع کی تاک میں بیٹھے ہیں۔
جمہوریت کے سفر کی گزشتہ پانچ سال کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ملک کی ترقی‘ عوام کی خوشحالی‘ ریاستی انتظامی اتھارٹی کی مضبوطی اور سسٹم کے استحکام کی کوئی جھلک ڈھونڈنے سے ہی مل پائے گی جبکہ مجموعی طور پر یہ سارا عرصہ ابتلاء کا عرصہ نظر آتا ہے جس کے دوران سیاسی انتشار‘ افراتفری‘ بلیم گیم‘ منافرت اور اودھم مچانے والی سیاست کو عروج حاصل رہا۔ اس سیاست میں اصل اور بنیادی کردار 2018ء کے حاصل کردہ انتخابی نتائج کی بنیاد پر اقتدار میں آنیوالی پاکستان تحریک انصاف اور اسکی قیادت کا رہا جس نے اپنے اقتدار کے پورے دور میں اپنے مخالفین کو پوری دھونس کے ساتھ عملاً دیوار سے لگائے رکھا جبکہ اس عرصہ کے دوران عوام کے انتہاء درجے کو پہنچے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل مزید گھمبیر ہوئے اور حکومتی اکابرین نہ صرف ان مسائل سے بے نیاز نظر آتے رہے بلکہ تضحیک آمیز لہجے میں یہ بھی باور کراتے رہے کہ عوام کو تعلیم‘ صحت اور روزگار کی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری نہیں۔ اسی دور میں نئے بیل آئوٹ پیکیج کی شکل میں ملک کی معیشت اور عوام کو آئی ایم ایف کی نئی ناروا شرائط کے شکنجے میں آنا پڑا جبکہ یہ ’’آکاس بیل‘‘ آج بھی ہماری معیشت کو جکڑے ہوئے ہے۔ اور آج آئی ایم ایف ہی نہیں‘ عالمی بنک بھی ڈکٹیشن دینے کیلئے ہمارے سروں پر سوار نظر آرہا ہے۔ عالمی بنک کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں غذائی عدم تحفظ میں اضافے اور تعلیم و صحت کی خدمات تک کی فراہمی میں کمی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں ٹرانسپورٹیشن کی بڑھتی لاگت کے باعث سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے اور علاج معالجے تک رسائی میں تاخیر کی بھی یہی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ عالمی بنک اس سے قبل اپنی رپورٹ میں پاکستان میں ٹیکس اصلاحات کی ضرورت پر بھی زور دے چکا ہے جن کے تحت عوام کو مختلف مدات میں دی گئی سبسڈیز ختم کرنے اور بعض نئے ٹیکس روشناس کرانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ ہمارے سالانہ بجٹ پہلے ہی آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع تیار ہوتے ہیں جبکہ آئی ایم ایف کے ایماء پر ہی حکومتیں ضمنی میزانیے لانے اور انکے ذریعے مروجہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافے پر مجبور ہوتی ہیں۔
ان حالات میں ملک کی معیشت کی بحالی کے چیلنج درپیش ہوں اور سیاسی بزرجمہروں کی جانب سے انتشار‘ افراتفری کی سیاست کو فروغ دینے اور منافرت کی فضا کو ادارہ جاتی سطح تک لے جانے کا چلن جاری ہو تو کسی بھی حکومت کو استحکام حاصل ہو سکتا ہے نہ وہ عوام کے مسائل حل کرنے کی کوئی ٹھوس پالیسی مرتب کر سکتی ہے۔ یقیناً اسی پس منظر میں اتحادیوں کے اقتدار کا ڈیڑھ سال کا دور پھر نگران سیٹ اپ کا چھ ماہ کا عرصہ بھی عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل حل کرنے میں قطعی ناکام رہا جبکہ آئی ایم ایف کا چھانٹا آج بھی بے بس و مجبور عوام پر ہی برس رہا ہے اور حکمران اشرافیہ طبقات آج بھی غربت‘ مہنگائی کا سارا بوجھ نحیف عوام الناس کی جانب منتقل کرنے کی سہولت حاصل کئے ہوئے ہیں۔
اگرچہ موجودہ جمہوری سیٹ اپ کی تکمیل تک معیشت کی بہتری اور عوام کے حالات سنورنے کی دل خوش کن کہانیاں سنائی جا رہی ہیں جن میں سٹاک مارکیٹ کی 70 ہزار کی نفسیاتی حد بھی عبور کرنے اور 694 پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ سٹاک مارکیٹ میں بلندیوں کے سارے ریکارڈ ٹوٹنے کی رپورٹیں بھی شامل ہیں اور وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے بقول وزیراعظم شہبازشریف کے کامیاب دورہ سعودی عرب کے تناظر میں مہنگائی کے بتدریج کم ہونے کے امکانات بھی قوی ہو چکے ہیں مگر زمینی حقائق تو ان سارے دل خوش کن مناظر کی نفی کرتے ہی نظر آتے ہیں کیونکہ جب حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع ہر پندھرواڑے پٹرولیم نرخوں اور اسی طرح آئے روز بجلی‘ گیس‘ پانی کے نرخوں میں بے مہابہ اضافہ کرتی رہے گی تو عوام کو غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل سے نجات ملنے کی توقعات کیسے باندھی جا سکیں گی۔ اسکے علاوہ حکومت مخالف ساری جماعتیں اپنے اپنے سیاسی مفادات کے تحت ایک پلیٹ فارم پر نئے اپوزیشن اتحاد کی شکل میں اپنی صف بندی کرکے عید کے بعد حکومت کیخلاف جارحانہ تحریک چلانے کی پہلے ہی منصوبہ بندی کر چکی ہیں جس کیلئے 8 فروری کے انتخابات کے مبینہ طور پر نتائج تبدیل کرنے کے دعوئوں سے مجوزہ تحریک کے رنگ ڈھنگ واضح کئے جا رہے ہیں۔ اس فضا میں ملک اور سسٹم مزید انتشار اور عدم استحکام کی جانب بڑھے گا تو اس سے سسٹم کی گاڑی ٹریک پر رکھنا بھی مشکل ہو جائیگا۔
ہمارے حکمرانوں کیلئے یہی آج کے بڑے چیلنجز ہیں جن سے عہدہ براء ہونے کیلئے سیاسی فہم و بصیرت کے ساتھ قومی مفاہمت کی فضا پروان چڑھانا اور مضبوط بنانا اشد ضروری ہے بصورت دیگر ملک اور اسکی معیشت کی سلامتی ہمیشہ خطرات میں گھری رہے گی۔