سیّد روح الامین
بلاشبہ جب تک ’احتساب‘ نہیں ہوگا ہمارا ملک ایک قدم بھی ترقی نہیں کر سکتا۔ موجودہ چیف جسٹس نے آغاز میں بہت ہی اچھا کہا تھا کہ جھوٹ ہمیں نہیں بولنا چاہیے۔ چیف جسٹس کے نام کے ساتھ ’صاحب‘ اس لیے نہیں لکھا کہ انہوں نے خود ہی فرمایا تھا کہ کسی بھی سرکاری بندے کے ساتھ ’صاحب‘ نہ کہا جائے۔ اب جھوٹ ہمارے سیاستدانوں کا روزمرہ کا معمول ہے۔ چند دن قبل الیکشن مہم میں بلاول زرداری اور ن لیگ والوں نے عوام کے ساتھ جو ’ڈرامائی‘ وعدے کیے کیا وہ انہیں پورا کریں گے سیاستدان کو ’’راہنما‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کو تو رول ماڈل ہونا چاہیے۔ یہ وعدے کر کے بعد میں کہتے ہیں وہ تومیرا سیاسی بیان تھا۔ وہ تو میں نے جذبات میں کہہ دیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی باتوں کا عوام مذاق اڑاتے ہیں۔ کوئی بھی یقین نہیں کرتا۔
؎عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ جو کہا جاتا ہے کہ اس ملک کے مسائل حل کرنا ایک پارٹی کے بس کی بات نہیں سب کو مل کر حل کرنا ہوں گے۔ بالکل غلط ہے۔ سب نے مل کر ہی تو 76سال میں اس ملک کا ستیا ناس کیا ہے اور اس نہج پر پہنچایا ہے۔ جب تک کوئی ایک محب وطن اور عوام دوست پارٹی دو تہائی اکثریت کے ساتھ نہیں آئے گی، ملک کے مسائل بڑھتے ہی جائیں گے۔ صدر زرداری کا سابقہ پانچ سالہ دور خود واضح ثبوت ہے۔ سب نے مل کر ملک کو لوٹا کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں تھا ۔ ملک کا تاریک ترین دور تھا۔ مخلوط حکومت میں عوام کی طرف توجہ نہیں ہوتی صرف ’’اتحادیوں‘‘ کے نخرے اٹھانے ہوتے ہیں۔ ان کی جائز و ناجائز خواہشات پوری کرنا ہوتی ہیں۔ اب پھر زرداری صاحب صدر بن گئے ہیں۔
؎ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
یہاں غریب کا بچہ غربت کی و جہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتا ۔ روزی روٹی پوری نہیں کر سکتا ۔ دوسری طرف اشرافیہ اپنے بچوں کو کوئی وزیراعظم بنانا چاہتا ہے اور کوئی وزیر اعلیٰ۔
بخدا یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا ۔ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک بلا تفریق احتساب نہ ہو۔ لیکن یہ کرے گا کون اور ہو گا کیسے؟ ایک صاحب کو نیب نے احتساب عدالت اور سپریم کورٹ سے دس اور سات کی سزا دلوائی۔ ابھی چار سال ہی گزرے تو اسی سپریم کورٹ نے اُن کو ’’ریلیف‘‘ دے دیا اور اسی احتساب عدالت نے اُنہیں ’’ویلکم‘ کہا۔ صبح نیب ریفرنس کے پلندے لے کر آتی ہے۔ اگلی صبح نیب عدالت میں اعلانیہ کہتا ہے کہ جی ہمیں ان صاحب سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ ضمانت کے حقدار ہیں تو ثابت ہوا کہ ہمارے ہاں قانون کے مطابق نہیں بلکہ شخصیات کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں ۔ جب احتساب کرنے والے ادارے کا ایسا جانبدارانہ سلوک ہو گا تو ملک خاک ترقی کرے گا؟ آگے چلیے نیب نے ’پلی بارگین‘ کے ذریعے کرپشن کی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔ آپ کھل کر کرپشن کیجئے۔ مال بنائیے پھر کچھ حصہ نیب کو دے دیں تو آپ کو کوئی بھی نہیں پوچھے گا۔ اس سے بھی آگے بڑھیے۔ گزشتہ پی ڈی ایم نے شب و روز درجنوں قوانین پاس کیے۔ اُن میں ایک یہ بھی تھا کہ پچا س کروڑ تک کی کرپشن آپ کو معاف ہے۔ اگرآ پ پچاس کروڑ تک کرپشن کرتے ہیں تو کوئی آپ کو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ سب کیا ہے؟ اب چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی سینٹ کے ارکان ہزاروں میں ہوں گے و ہ سب اگر ایک ایک پچاس کروڑ کماتا ہے تو ملک کا کیا حال ہوگا۔ اب آئی ایم ایف سے شاید ہم کبھی بھی جان نہ چھڑا سکیں گے۔
ہمارے سیاست دان آئی ایم ایف سے قرضے لے کر خوشی سے ’’دھمال‘‘ ڈالتے ہیں۔گیس نہیں آتی۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھر مار ہوتی۔ بل اتنے زیادہ آتے ہیں کہ عوام بے بس ہیں کیا کریں؟ کہاں جائیں؟ مہنگائی روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہے۔ روزگار کوئی نہیں۔ مگر اشرافیہ کے چہرے خوشحال، ہشاش بشاش؟ عوام کا پرسان ِ حال کوئی ایک بھی نہیں۔ الیکشن میں جو دھاندلی ہوئی۔ جیتے ہوئے ہارے اور ہارے ہوئے جیتے پوری دنیا کے میڈیا نے دکھایا۔ بلاشبہ نگران اور پی ڈی ایم ایک ہی تھے۔ آج سب نگرانوں کو ’انعام‘ کے طور پر بڑے بڑے عہدے تفویض کیے جا رہے ہیں۔ اب 9مئی کے ساتھ 9فروری بھی قابل مذمت دن ہے۔ 9مئی کی تحقیقات انصاف پر مبنی ہوں۔ جو بھی مجرم ہوں اُن کو سزا دی جائے مگر 9مئی کی سزا پوری قوم کو تو نہیں ملنی چاہیے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے ایک موقع پر درست فرمایا تھا کہ ہمیں قائداعظم کے اس سبق کو اتحاد، ایمان اورتنظیم کو نہیں بھولنا چاہیے کاش کہ ہم بانی پاکستان کے ان فرمودات پر عمل پیرا ہوتے۔ لہٰذا جس دن بلا تفریق احتساب کا آغاز ہوگا۔ ہمار ا ملک ترقی کی منازل سرعت سے طے کرتا جائے گا۔