قاضی نامہ… اشفاق احمد قاضی
ishfaqahmedqazi@yahoo.com
دریا کے کنارے گنے جنگل میں لمبی لمبی گھاس سکون ، امن اور اطمینان کی زندگی بسر کرتے ہوئے اپنی اچھی صحت اور طاقت پر صبح شام قدرت کا شکر ادا کررہی تھی۔ایک دن دوپہر کو طوفانی ہوا کے جھونکوں کی گرد و غبار میں پھڑ پھڑ کی آواز بڑھتی گی۔لہراتی ہوئی گھاس کے سر پرترپال اکر گرا۔ترپال کے گرنے سے گھاس کی ِ کل کائینات پر تاریکی چھا گئی۔ترپال کے نیچے گھاس بے بسی مجبوری میں منہ آسمان کی طرف کر کے قدرت کو مدد کیلے پکارنے لگی۔اے خدا تری رحمت اور نعمت سے سارا دن سورج کی کرنیں برستی روشنی چمکتی تھی۔کرنوں کی قدرو قیمت سے مطمن تیرا شکر، صبح شام ادا کرتی تھی۔روشن کرنوں سے میرے نرم و نازک ٹہنیوں میں بڑی طاقت جرات، ہمت صبر تھا۔ترپال کا سر پر آنے سے سایہ چھا گیا۔سورج کی کرنیں میرے وجود تک نہیںپہنچ رہی۔ترپال کے سایہ میں میرے بدن کی طاقت زور ختم ہو رہا ہے۔میرا رنگ سبز سے تبدیل ہو کر سیفد ہو رہا ہے۔میر اسر کمزوری سے نیچے کی طرف جھک گیا ہے۔ہوا کے چلنے سے ہوا کی گرد و غبار کا بوجھ بھی بھاری محسوس ہو رہا ہے۔ دن بدن گزرتے موت قریب نظر آنے لگی ہے۔سایہ میں دوزخ کی طرح جل سڑ رہی ہوں۔پہلے اپنی تقدیر پر شاکر تھی۔اپنے وجود کے ہر حصے پر ناز تھا۔کرنوں کے برسنے سے بے پناہ طاقت جرات صبر تھا۔جب کبھی اونٹ میرے بدن پر پاوں رکھتے ہوئے گزر جا تا، میں بیٹھ جاتی اور اونٹ کے جانے کے بعد خوش خوش دوبارہ لہلانے لگتی۔ میری کونپلیں اور ٹہنیاں کبھی ٹوٹی یا زخمی تک نہیں ہوئی ۔ جب کبھی اونٹ کے بعد ہاتھی میرے نرم و نازک خوبصورت بدن پر بھاری بھرکم پاوں رکھ کر گزر جاتا ، میرے وجودکاکوئی حصہ ٹوٹتا نہیں، زخمی نہیں ہوتا ۔ ہاتھی کے گزر جانے کے بعد پھر سے خدا کا شکر ادا کرتے ہوے کھڑی ہو کر زندگی کا لطف مزہ اٹھاتے ہوئے لہلانے لگتی۔
اب کافی دن گز چکے! کرنیں نصیب نہیںہورہی ، نزع قریب ہوتی جا رہی ہے، آوازدبتی جا رہی ہے۔ اے خدا ، ایک بار پھر زندگی عطا فرما۔اے شفیق مہربان، تیری عظمت، برتری، بڑھائی کا واسطہ، میری التجا قبول فرما۔کچھ ہی دنوں کیلے پھر سے زندگی دے۔ اس ترپال کو ہٹا دے ۔ میں کائنات کو پھر سے دیکھ سکوں۔گھاس کی پکار کے بعد بلندیوں سے آواز آئی، قدرت نے عاجزی، اطاعت کے بدلے تیری التجا قبول فرمائی۔پروردگار ِعالم تومشکلات و مصائب کو دور کرنے والا ہے۔ خدا بزرگ و برتر دیکھ رہا ہے۔دن ڈھلتے، فضا پر طوفان خیز سیاہ بادل چھا گے۔ آسمان کی چھاتی پر بجلی چمکنے لگی۔بادل گرجنے لگے۔ درختوں کی شاخیں جھکنے اور ٹوٹنے لگیں۔انتہائی تیز رفتار ہوا اور اندھی طوفان کے گرد و غبار نے ترپال کو اٹھایا، اپنا حصہ بنانے کے بعد نظروں سے دور لے گیا۔ گھاس کی کاینات روشن منور ہوگی۔گھاس نے سر اٹھا کر حیرت سے ادھر ادھر دیکھا، باقی کاینات پر کیا بیتی ۔کمزور گلاب کے پھول کی پتیاں منتشر زمین پر پڑھی تھیں۔ درختوں کی ٹہنیاں سبز پتوں کے ساتھ جھوم رہی تھیں۔زندگیاں ٹھنڈک کے بڑھنے سے سکڑی سکڑی نظر آرہیں ہیں۔جانور اپنے بدن کے اندر سکڑ کر ساکن کھلی فضا میں کھڑے ہیں۔گھاس بلندآواز میںآہ بھر کر کہنے لگی۔اے خدا ہم تیرے شکر گزار ہیں، زندگی ،صحت آسمان کی چھاتی سے تیری رحمت کے بعد نصیب ہوتی ہے۔زمین نے سہارا دیا۔ خوراک پانی دیا۔مگر کرنوں کے نہ ملنے سے میر ی سبز رنگت ختم ہوتے ہوئے میرا رنگ پیلا، سفید ہو کر میرا بدن کمزور ہوتا گیا۔نزع میرے قریب ہو کر میرے لیے موت بلانے لگی۔میری آواز کمزورہو گئی تھی۔اب پھر سے تازہ ہوا میں کھلے آسمان تلے تیری رحمت کے برسنے سے اچھی زندگی کی طرف تیزی آسانی سے جانے لگی ہوں۔گھاس کی گفتگو سنتے ہوئے کمزور دیسی مرغی گھاس کے قریب آگئی۔ دیسی مرغی قریب کی گھاس پر بیٹھ گئی، بولی!گھاس بہن تیز ترین ہوا کے جھونکوں نے شیور مرغی شیڈ کا بند دروازہ کھولا میں آہستہ آہستہ کھلے دروازے سے نکل کر یہاں پہنچی ہوں۔وہاںشیڈ میں مصنوعی روشنی اور گرمی میں میری صحت بہت کمزور ہو گئی ہے۔ رنگت بھی تبدیل ہو چکی ، شیڈ کے اندر صاف پاک پانی اور پاکیزہ خوراک بے حساب تھی۔ میںصبح ،دوپہر ،شام انسان کی طرح خوراک کھاتے کھاتے بہت موٹی ہو کر تکلیف دہ اذیت ناک بیماریوں کی لپٹ میں چلی گئی ہوں۔ ڈاکٹر آکر ٹیکہ لگاتا ہے تاکہ زندہ رہے۔ کھانے پینے کا مزہ لطف ختم ہو چکا ہے۔شیڈ میں کھائے جانے والی خوراک ہضم نہیں ہوتی۔بیٹھے بیٹھے مزید کھانے کو دل کرتا ہے۔بار بار کھانے سے موٹی ہو گئی ہوں۔میں جس زمین پر تیزی و پھرتی چستی سے بھاگتی دوڑتی تھی، اب اس زمین پر آسانی سے چل پھر نہیں سکتی۔شیڈ مالک نے پکڑ کر بند کر دیا تھا۔
گھاس بہن جب کسی زندگی کو سورج کی کرنیں نصیب نہیں ہوتی، زندگی کاوجود کمزور ہو کر موت کے دروازے کی طرف جانا شروع ہو جاتا ہے۔ گھاس نے اہ بھری بولی!میری ہر ٹہنی پر سورج کی کرنوں کے برسنے سے خدائی نور دودھ بننے کی صلاحیت اہلیت پیدا ہوتی ہے۔جانور مجھے اپنی خوراک بناتے ہیں۔ میں جب جانوروں کے پیٹ میں چلی جاتی ہوں تو میری طاقت ، اہلیت سے جانور صحت مند ہو کر خدائی نور دودھ دینے کے قابل ہو جاتے ہیں۔آسمان پر رحمت کے فرشتے نے گھاس کی گفتگو سنتے ہی بلند آواز میں کہنے لگا! ہر زندگی ، انسان ہو یا حیوان ہو ، پرند ہو ، کیڑے مکوڑے ہوں،کھیت ہوں یا گھر ، ہر زندگی کو قوت، صحت سورج کی کرنوں کے برسنے سے نصیب ہوتی ہے۔ جب کوئی انسان ہر وقت سایہ میں رہتا ہے تو نہ نظر آنے والی بیماریوں کی لپیٹ میں چلا جاتا ہے۔اذیت ناک بیماریاں وجود میں داخل ہو جاتی ہیں۔ طاقت چستی پھرتی ہمت روٹھ جاتی ہے۔ زندگیوں پر کرنوں کے برسنے سے ہی چستی پھرتی طاقت جرات وجود میں پیدا ہوتی ہے۔زندگی کچھ کر گزرنے کی خواہش سے اگے بڑھتی پھلتی پھولتی ہے۔سایہ ہمیشہ تاریکی میں داخل کرتے ہوئے موت کے دروازے پر زندگیوں کو لے جاتا ہے۔ کرنوں میں میٹھاس طاقت ، قوت چستی پھرتی نور صلاحیت ، اہلیت اور ہر نعمت موجود ہے انسان کو توجہ کرنا سے ہی بہتری ہے۔فرشتے نے آہ بھری اور فرمانے لگے!بدن پر میل نہ آنا، بدن کو محنت جفا کشی سے بچانا۔کھوکھلی عظمت نے انسان کی عقل چھین لی ہے۔ دل کی تمام آرزوں آمیدوں کا واسطہ فطرت کی طرف دھیان کر۔تمھاری ظاہری عظمت میں کتنی بلائیں بیماریاں پوشیدہ ہیں۔اے انسان اپنے بازو سر نیچے کر اپنے مرتبہ قوت ہمت روحانی مسرتوں کو بڑھانے کیلے کبھی کبھی خیال آتا ہے۔پھر فرشتے نے آواز بلند کی اور کہنے لگا بدنصیب دلوں دماغوں کو کیا نصیحتیں اثر کرتی ہیں۔ خواہشوں نے جن کو بے حس کر دیا ہے۔جہالت نے نادان سرکش بنا دیا ہے۔افسوس حیرت مایوسی ہے جن کو اپنے ہی وجود کیلے انتہائی ضرورتوں کی پہچان و فکر علم نہیں۔بجلی ، اے سی نے جن کو کمزور، سست ، بے بس کردیا ہے، ان کو فطرت کی رحمتوں کی پہچان ہی نہیں۔سورج کی کرنوں سے چھپنے والے پسینہ بدن سے نکل کر کتنی بیماریوں کو فضاء میں تحلیل کرتا ہے۔محنت ،جفا کشی سے کتنی روحانی مسرتیں نصیب ہوتی ہیں۔سورج کی کرنیں کتنی طاقت قوت صحت نصیب کرتی ہیں۔بدن کو سورج کی کرنوں کے سپرد کرنے والے ہی صحت مند ہوکر چست لائق، ہمت ، جرات سے فہم و فراست والے ہوتے ہیں۔ان کو ڈاکٹر دوا کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کرنوں سے چھپنے والے جلد اذیت ناک بیماریوں کی لپیٹ میں چلے جاتے ہیں۔۔ فرشتے نے فرمایا،اللہ تبارک و تعالیٰ عقل و علم دے، سب کا اللہ حافظ!!