مروہ خان میرانی
marwahkha@hotmail.com
سوشل میڈیا پہ ایک تصویر دیکھی جس میں فلسطین کے چھوٹے سے بچے ہاتھ میں غلیل پکڑے اسرائیل کی فوج کے آگے کھڑے ہیں۔
اس تصویر کو دیکھ کے مجھے حضرت داؤد علیہ السلام کا وہ واقعہ یاد آگیا۔ جب جالوت کا لشکر تالوت کے لشکر سے جنگ کے لیے آمنے سامنے کھڑا تھا۔ جالوت کو اپنی فتح پہ یقین تھا۔ وہ ایک طاقتور انسان تھا جس کو شکست دینا ناممکن تھا۔ ہر آدمی اسے لڑنے سے ڈرتا تھا۔ طالوت نے جب اپنے لشکر سے پوچھا کہ کون ہے جو جالوت سے لڑنے جائے گا تو کسی نے بھی آگے جانے کے لیے حامی نہ بھری۔
پھر ایک لشکر سے ایک نوجوان آگے بڑھا۔ اس نے ارد گرد سے پتھر اٹھائے اور غلیل لے کر سامنے لڑنے کے لیے بڑھ گیا۔
طالوت اونچی آواز میں چیخا، تم کس طریقے سے اپنی تلوار اور زرہ کے بغیر حفاظت کرو گے؟
اس نوجوان نے جواب دیا، "اللہ میری حفاظت کرے گا"-
جالوت نے جب اس نوجوان کو آتے ہوئے دیکھا تو ہنسا، اس کا مذاق اڑایا اور کہا میں تو صرف تلوار کے صرف ایک وار سے تمہارا سر قلم کر دوں گا۔
نوجوان نے اونچی آواز میں جواب دیا۔
" تمہارے پاس تلوار، زرہ اور جنگی سامان ہوگا لیکن میں تمہارا اللہ کے نام پر سامنا کرتا ہوں، آج تم دیکھو گے کہ یہ تلوار نہیں جو مارتی ہے یہ اللہ کی طاقت ہے جو ختم کرتی ہے"
پھر اس نوجوان نے اللہ کے نام پہ پتھر اٹھایا اور غلیل سے مارا جو کہ سیدھا جالوت کے سر پہ لگا اور جالوت وہیں پہ ڈھیر ہو کر مرگیا۔
یہ نوجوان حضرت داؤد علیہ السلام تھے انہوں نے دشمن کا سامنا صرف اللہ کے توکل پہ کیا۔
اور آج ہم مسلمان ڈیڑھ ارب کی تعداد میں ہونے کے باوجود ایک چھوٹے سے سفاک ملک کو باز نہیں رکھ سکے۔
اللہ تعالیٰ نے کیا خوب مومنوں کو تسلی دی ہے
"اور نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ تم ہی غالب رہو گے اگر ایمان رکھتے ہو"-(ال عمران: 139)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم غالب نہیں آرہے تو ہمارے ایمان میں کس حد تک کمی واقع ہو چکی ہے؟۔ جب کہ اللہ نے واضح الفاظ میں اس کا نچوڑ بتا دیا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ ہر آنے والا دور پچھلے دور سے بدتر ہوگا۔ جو کہ ہم دن بدن یہ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ فلسطینیوں پھر جو ظلم، ستم، زیادتی اب ہو رہی ہے اس ظلم کے اظہار کے لیے کوئی الفاظ بھی سہارا بننے سے انکار کر دیں۔ ہم ایسی قوم سے کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ جنگ بندی کر دے جب کہ اپنی ماضی میں انہوں نے اپنے نبیوں تک کو قتل کر دیا ہوا ہے، نعوذ باللہ۔
یہاں تک کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے ان کی ڈھٹائی کو دیکھتے ہوئے سلسلہ نبوت ہی بنی اسرائیل سے لے کر بنی اسماعیل کو دے دی۔ اور اپنے آخری محبوب نبی کو بنی اسماعیل سے بھیجا۔ جس کا بدلہ یہ حسد کے مارے ہوئے لوگ آج تک مسلمانوں سے لے رہے ہیں بجائے اس کے کہ فلاح پائیں۔ بنی اسرائیل جیسی ڈھیٹ ترین قوم کا واسطہ حضرت موسی علیہ السلام کو بھی پڑا تھا۔
جن کی نافرمانیوں کی وجہ سے یک کے بعد دیگرے سات مختلف عذابوں میں مبتلا کیا گیا اور ہر دفعہ ترلے منتیں واسطے ڈال کے موسی علیہ السلام کے ذریعے اللہ سبحانہ و تعالی سے معافی حاصل کر کے پھر اپنی حرکتوں پہ واپس اتر آتے تھے۔
ایسی ڈھیٹ قوم جو خون، مینڈکوں،کیڑوں، قہت سالی اور منہ کالے کروانے کے باوجود سفاک ہی رہے۔ یہاں تک کہ موسی علیہ السلام نے ان سے عاجز آکر خود اللہ تعالی سے ان کے غرق ہونے کی دعا مانگی۔ خود تو ڈوب مرے لیکن اپنی نسلوں میں سفاقیت منتقل کر گئے۔
اگر فلسطینیوں کے اس ظلم پر کوئی ایک مسلمان بھی خاموش بیٹھا رہا تو سمجھ لیجئے کہ ہم مسلمان بے ضمیر ہو چکے ہیں اور کلمہ پڑھنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔
اس قیامت زدہ ماحول میں جو کم سے کم فلسطینیوں کے لیے ہم کر سکتے ہیں وہ یہ ہیں۔
اللہ کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ استغفار کریں جو کہ صرف منہ زبانی نہ ہو بلکہ ہمارے اعمال اس بات کی گواہی دیں کہ ہم نے حقیقت میں اپنے گناہوں سے توبہ کر لی ہے۔تاکہ اللہ سبحانہ و تعالی کی رحمت ہمارے اوپر نازل ہو جیسے یونس علیہ السلام کی قوم پر نازل ہوئی تھی۔ کیونکہ اللہ کے مغفرت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔
دوسرا، ہم اپنے فلسطینی مسلمان بہن بھائیوں کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعا کریں جو اللہ کی بارگاہ میں قبول ہو۔
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
"آدمی کی اپنے بھائی کے حق میں پیٹھ پیچھے دعا قبول ہوتی ہے اس کے سر پر ایک فرشتہ متعین ہوتا ہے اور جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو اس پر بھی متعین کردہ فرشتہ کہتا ہے امین اور تیرے لیے بھی یہ اس کی قبولیت ہو"- (مسلم)
تیسرا، ان کے لیے صدقہ خیرات کریں کیونکہ صدقہ اللہ کے غضب کو ٹالتا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
"تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے وہ اسے اپنی ہاتھ سے بدل (روک) دے۔ اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تو پھر اپنی زبان سے بدل دے۔ اگر وہ اس کی طاقت بھی نہیں رکھتا تو پھر اسے اپنے دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا کم تر درجہ ہے۔ (مسلم)
اور ہم سب اس وقت کم سے کم ایمان کے دوسرے درجے پہ کام کر سکتے ہیں۔ اپنی آواز ہر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر استعمال کریں۔ فلسطینیوں کے پوسٹوں سے اس کو اتنا بھر دیں کہ سوائے فلسطین کے علاوہ کچھ اور نظر ہی نہ آئے۔ جہاں احتجاج ہو رہا ہو وہاں ضرور شامل ہو کر اس جلسے کی تعداد میں اضافہ کیجئے تاکہ دنیا میں مسلمانوں کی یکجہتی اور طاقت کا اندازہ ہو سکے۔
باہر کی وہ ساری کمپنیاں اور پروڈکٹس پہ بین لگائیے اور خریدنے سے گریز کریں تاکہ اسرائیل کو پیسے کی امداد اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے خون کے لیے نہ پیش کی جائے۔ ہر پروڈکٹ کے پیچھے کوڈ 729 چیک کریں۔ GS-Israel
جیسے ہی حالات تھوڑے بہتر ہوں یا ان فلاحی اداروں کو آپ جانتے ہیں جو کہ فلسطین کے لیے ریلیف کا کام کر رہے ہیں اپنی مالی امداد ان تک پہنچانے کی کوشش کیجئے۔
مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنے ضمیر کو خود جھنجوڑیے اور یہ سوچیے کہ آپ اپنی ذات سے کس طریقے سے فلسطینیوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ اسرائیل کو تو ہر ایک دو سال بعد اپنی اصلیت دکھا کے مسلمانوں کے ضمیر کو بارہا چیک کرنا ہوتا ہے کہ وہ ابھی زندہ ہے یا آہستہ آہستہ وہ بھی مْردہ ہو گئے ہیں۔ سرکار دو عالم نے اپنے نواسوں کو پھول سے تشبیہ دی کہ حسن اور حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ اور آج اس دنیا میں ان کی امت کے معصوم پھولوں کے پرخچے اڑ رہے ہیں، اور بیشتر خدا کی مخلوق خاموش ہے اور بے حسی اور بے ضمیری کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
خدانخواستہ یہ نہ ہو کہ قیامت والے دن حوض کوثر کے وقت حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنا چہرہ مبارک ہم سب سے پھیر لیں کیونکہ ہم نے اْن کے امتیوں کو کٹتے مرتے ہوئے دیکھا اور کچھ بھی نہ کیا۔۔۔۔
اگر اللہ پہ بھروسہ ہو تو 313 مسلمان بھی ہزار کفار کے اوپر بھاری ہوتے ہیں۔
پیارے نبی آقا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہ اس قول کو بھلا ہم کیسے بھلا سکتے ہیں؟؟؟؟
فرمایا:
"مومنوں کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور باہمی ہمدردی کی مثال جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو سارے جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے بائیں اور کے نیند اڑ جاتی ہے اور پورا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے"- (صحیح)