حکمرانوں پر جب تنقید کی جائے یا ان کی نالائقی اور کرپشن کا بھانڈا عین بیچ چوراہے میں پھوڑا جائے تو بے چارے تلملاتے اور چلاتے تو بہت ہیں مگر اپنی صفائی میں کوئی لمبی چوڑی دلیل نہیں دیتے بس ایک ہی بات لگاتار کرتے چلے جاتے ہیں کہ کیا میڈیا کو یہ سب کچھ اس وقت نظر نہیں آ رہا تھا جب ہم سے پہلے حکمران یہی کچھ کر رہے تھے؟
وزیر محنت خورشید شاہ کی پارلیمنٹ میں وہ حیرت انگیز تقریر جس کا حوالہ ہم نے کل بھی دیا تھا، صرف اور صرف اسی ایک نقطے پر مرکوز رہی ہے کہ میڈیا کو اس وقت تو ہوش نہیں آتی جب اقتدار پر ڈکٹیٹر قابض ہوتے ہیں مگر جونہی بیچاری جمہوریت واپس پٹڑی پر آنے لگتی ہے، میڈیا کرپشن اور نااہلی کی دہائی ڈالنے لگتا ہے، وزیر محترم نے ہائوس کو ایک ترغیب نما مشورہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ معزز اراکین پارلیمنٹ اتفاق رائے سے ایک سٹینڈنگ کمیٹی قائم کریں تاکہ وقتاً فوقتاً ہر گستاخ ٹی وی اینکر، کالم نگار یا رپورٹر کو طلب کرکے اس کی طبیعت درست کی جا سکے۔ ہمارے خیال میں ایسے فورم کا قیام ایک صحتمند اقدام ہو سکتا ہے بشرطیکہ اس کی ترتیب میں ایک عدد جیوری کی گنجائش بھی نکالی جائے جس کا فیصلہ حتمی ہو اور اس میں سول سوسائٹی اور عدلیہ کو بھی شامل کیا جائے۔ علاوہ ازیں اگر مذکورہ کمیٹی کی کارروائیاں میڈیا پر براہ راست نشر کرنے کا بندوبست بھی ہو جائے تو یہ سونے پر سہاگہ ثابت ہو گا۔ خیر ہمیں چونکہ یقین ہے کہ ہمارے دیگر قیمتی مشوروں کی طرح ارباب بست و کشاد اس مشورے پر بھی نہایت سکون کے ساتھ تین حرف بھیجیں گے اور وہی کریں گے جو ان کو مناسب لگا، اس لئے ہم ان تمام ٹی وی اینکروں کو بروقت مطلع کرنا ضروری سمجھتے ہیں جو بیچارے اسلام آباد سے دور کسی اور شہر میں بیٹھ کر پروگرام کرتے ہیں، آج سے ہی اپنے چینل کے اسلام آباد بیورو یا مرکز میں اپنا ایک عدد عارضی سیٹ لگوا لیں کیونکہ اگر آپ نے پنگا لینے سے باز نہیں آنا، تو پھر آپ کو وفاقی دارالحکومت میں اپنے اکثروبیشتر قیام وطعام کا بندوبست رکھنا چاہئے تاکہ دن کے وقت آپ اپنے کئے کی سزا کے طور پر پیشی بھگتیں اور شام کو اپنا شو کریں۔ ہمارا دوست عزیزی ناہنجار جو ہر بات کا منفی پہلو ہی دیکھتا ہے، آج کل یہ مشورہ بھی دیتا سنائی دیا ہے کہ اگر ممکن ہو سکے تو اڈیالہ جیل میں بھی کوئی واقفیت پیدا کر لی جائے تاکہ بوقت ضرورت کام آ سکے۔
ایک گزارش ہمیں یہ بھی کرنی ہے کہ خورشید شاہ تھوڑا تردد مزید گوارا کر لیں اور اپنے کسی ڈپٹی سیکرٹری کو مامور کرکے ریکارڈ کو کھنگا لیں، آپ کو معلوم ہو گا کہ میڈیا نے مشرف کو کس طرح تگنی کا ناچ نچایا تھا، آپ کو یہ پتہ بھی چلے گا کہ بیچاری ق لیگ آج جن حالوں میں ہے، اس کے پیچھے بھی آپ احباب کا ’’حسن کارکردگی‘‘ کارفرما نہیں بلکہ میڈیا کی لگاتار یلغار ہے۔ اگر میڈیا یہ سب کچھ نہ کرتا تو آج آپ زیادہ سے زیادہ ضلع سکھر کے نائب ناظم ہوتے۔ ہمیں اس بات سے ہرگز اختلاف نہیں کہ آپ نے اپنے اوپر الزام تراشی کرنے والے کسی ایک صحافی یا اینکر کے لتے لئے ہیں کیونکہ اگر الزام لگانا اور اس کو ثابت کرنے کی کوشش کرنا اس کا حق ہے تو اپنا دفاع کرنا اور اس کی ’’جھاڑ جھمب‘‘ کرنا آپ کا حق ہے اور اس کے لئے پارلیمنٹ کا فلور بہترین فورم ہے۔ تاہم ہمارے اعتراض اور اختلاف کی وجہ صرف آپ کا انداز تخاطب ہے کہ جس میں آپ نے ایک طرح سے سارے میڈیا کو ایک ہی کھونٹے سے باندھ دیا ہے۔ آئندہ یہ مت کیجئے گا، آپ کی بڑی مہربانی ورنہ یقین کیجئے آپ کی زندگی کے کم از کم چالیس پچاس قیمتی سال صرف صفائیاں دیتے گزر جائیں گے۔
البتہ ایک حماقت ایسی ضرور ہے کہ جس کا ارتکاب ہمارے اکثر ’’کرپشن شناس‘‘ ٹی وی اینکر اور کالم نگار دھڑا دھڑ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اور وہ یہ کہ آپ کو بھی لے دے کر بیچارے سیاستدان ہی ملتے ہیں کیونکہ انہوں نے یقیناً اگلے تین چار سال میں اقتدار سے باہر اور عموماً جیل وغیرہ کے اندر ہونا ہوتا ہے، آخر آپ کا دھیان ان ملک دشمن کرپٹ افسروں کی طرف کیوں نہیں جاتا جن کے مقابلے کی دیہاڑیاں سیاسی لوگ کبھی خواب و خیال میں بھی نہیں لگا سکتے۔ کیا آپ اپنے تحقیقی جوہر اس میدان میں دکھا سکتے ہیں کہ کتنے افسران ایسے ہیں جو کل بھی کلیدی پوزیشن پر بیٹھے ’’انہی کے گھر‘‘ میں ڈانگ پھیرتے رہے ہیں اور آج بھی نہایت لذیذ پوسٹ پر بیٹھے تخلیق پاکستان کے جملہ مقاصد پورے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کیا آپ نے کبھی یہ تخمینہ لگوانے کی سعی فرمائی ہے کہ کتنے سول اور ملٹری افسر، دوران سروس اور بعداز ریٹائرمنٹ، ظاہری وسائل سے کہیں بڑھ چڑھ کر زندگی گزار رہے ہیں؟ آپ زیادہ دور مت جائیں کیس سٹڈی کے طور پر پچھلے تین عدد چیئرمین ریلوے، سیکرٹری پانی و بجلی، مواصلات و پروڈکشن وغیرہ پر فوکس جما کر دیکھیں، آپ کو کافی کچھ ملے گا، لکھنے کو اور بولنے کو۔ اسی طرح صوبہ پنجاب اور سندھ کے وہ سیکرٹری صاحبان جو کلیدی (مراد زیادہ بجٹ والے) محکموں کے انچارج رہے ہیں، ذرا انہیں بھی کھنگال کر دیکھ لیں، یہ احباب آپ کو حیران کرکے رکھ دیں گے، اور پھر چلتے چلتے ذرا پچھلی حکومت کے آخری پانچ سالوں میں خرچ ہونے والے ان 16 ارب روپے کا حساب کتاب بھی چیک کریں جو صرف محکمہ انفرمیشن نے اشتہارات کی شکل میں پھونک ڈالے۔
پہلے ان معاملات پر غور کر لیں، وزیر بیچارے تو ان کے مقابلے میں سب کے سب حاجی ثنااللہ ہیں ! !
وزیر محنت خورشید شاہ کی پارلیمنٹ میں وہ حیرت انگیز تقریر جس کا حوالہ ہم نے کل بھی دیا تھا، صرف اور صرف اسی ایک نقطے پر مرکوز رہی ہے کہ میڈیا کو اس وقت تو ہوش نہیں آتی جب اقتدار پر ڈکٹیٹر قابض ہوتے ہیں مگر جونہی بیچاری جمہوریت واپس پٹڑی پر آنے لگتی ہے، میڈیا کرپشن اور نااہلی کی دہائی ڈالنے لگتا ہے، وزیر محترم نے ہائوس کو ایک ترغیب نما مشورہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ معزز اراکین پارلیمنٹ اتفاق رائے سے ایک سٹینڈنگ کمیٹی قائم کریں تاکہ وقتاً فوقتاً ہر گستاخ ٹی وی اینکر، کالم نگار یا رپورٹر کو طلب کرکے اس کی طبیعت درست کی جا سکے۔ ہمارے خیال میں ایسے فورم کا قیام ایک صحتمند اقدام ہو سکتا ہے بشرطیکہ اس کی ترتیب میں ایک عدد جیوری کی گنجائش بھی نکالی جائے جس کا فیصلہ حتمی ہو اور اس میں سول سوسائٹی اور عدلیہ کو بھی شامل کیا جائے۔ علاوہ ازیں اگر مذکورہ کمیٹی کی کارروائیاں میڈیا پر براہ راست نشر کرنے کا بندوبست بھی ہو جائے تو یہ سونے پر سہاگہ ثابت ہو گا۔ خیر ہمیں چونکہ یقین ہے کہ ہمارے دیگر قیمتی مشوروں کی طرح ارباب بست و کشاد اس مشورے پر بھی نہایت سکون کے ساتھ تین حرف بھیجیں گے اور وہی کریں گے جو ان کو مناسب لگا، اس لئے ہم ان تمام ٹی وی اینکروں کو بروقت مطلع کرنا ضروری سمجھتے ہیں جو بیچارے اسلام آباد سے دور کسی اور شہر میں بیٹھ کر پروگرام کرتے ہیں، آج سے ہی اپنے چینل کے اسلام آباد بیورو یا مرکز میں اپنا ایک عدد عارضی سیٹ لگوا لیں کیونکہ اگر آپ نے پنگا لینے سے باز نہیں آنا، تو پھر آپ کو وفاقی دارالحکومت میں اپنے اکثروبیشتر قیام وطعام کا بندوبست رکھنا چاہئے تاکہ دن کے وقت آپ اپنے کئے کی سزا کے طور پر پیشی بھگتیں اور شام کو اپنا شو کریں۔ ہمارا دوست عزیزی ناہنجار جو ہر بات کا منفی پہلو ہی دیکھتا ہے، آج کل یہ مشورہ بھی دیتا سنائی دیا ہے کہ اگر ممکن ہو سکے تو اڈیالہ جیل میں بھی کوئی واقفیت پیدا کر لی جائے تاکہ بوقت ضرورت کام آ سکے۔
ایک گزارش ہمیں یہ بھی کرنی ہے کہ خورشید شاہ تھوڑا تردد مزید گوارا کر لیں اور اپنے کسی ڈپٹی سیکرٹری کو مامور کرکے ریکارڈ کو کھنگا لیں، آپ کو معلوم ہو گا کہ میڈیا نے مشرف کو کس طرح تگنی کا ناچ نچایا تھا، آپ کو یہ پتہ بھی چلے گا کہ بیچاری ق لیگ آج جن حالوں میں ہے، اس کے پیچھے بھی آپ احباب کا ’’حسن کارکردگی‘‘ کارفرما نہیں بلکہ میڈیا کی لگاتار یلغار ہے۔ اگر میڈیا یہ سب کچھ نہ کرتا تو آج آپ زیادہ سے زیادہ ضلع سکھر کے نائب ناظم ہوتے۔ ہمیں اس بات سے ہرگز اختلاف نہیں کہ آپ نے اپنے اوپر الزام تراشی کرنے والے کسی ایک صحافی یا اینکر کے لتے لئے ہیں کیونکہ اگر الزام لگانا اور اس کو ثابت کرنے کی کوشش کرنا اس کا حق ہے تو اپنا دفاع کرنا اور اس کی ’’جھاڑ جھمب‘‘ کرنا آپ کا حق ہے اور اس کے لئے پارلیمنٹ کا فلور بہترین فورم ہے۔ تاہم ہمارے اعتراض اور اختلاف کی وجہ صرف آپ کا انداز تخاطب ہے کہ جس میں آپ نے ایک طرح سے سارے میڈیا کو ایک ہی کھونٹے سے باندھ دیا ہے۔ آئندہ یہ مت کیجئے گا، آپ کی بڑی مہربانی ورنہ یقین کیجئے آپ کی زندگی کے کم از کم چالیس پچاس قیمتی سال صرف صفائیاں دیتے گزر جائیں گے۔
البتہ ایک حماقت ایسی ضرور ہے کہ جس کا ارتکاب ہمارے اکثر ’’کرپشن شناس‘‘ ٹی وی اینکر اور کالم نگار دھڑا دھڑ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اور وہ یہ کہ آپ کو بھی لے دے کر بیچارے سیاستدان ہی ملتے ہیں کیونکہ انہوں نے یقیناً اگلے تین چار سال میں اقتدار سے باہر اور عموماً جیل وغیرہ کے اندر ہونا ہوتا ہے، آخر آپ کا دھیان ان ملک دشمن کرپٹ افسروں کی طرف کیوں نہیں جاتا جن کے مقابلے کی دیہاڑیاں سیاسی لوگ کبھی خواب و خیال میں بھی نہیں لگا سکتے۔ کیا آپ اپنے تحقیقی جوہر اس میدان میں دکھا سکتے ہیں کہ کتنے افسران ایسے ہیں جو کل بھی کلیدی پوزیشن پر بیٹھے ’’انہی کے گھر‘‘ میں ڈانگ پھیرتے رہے ہیں اور آج بھی نہایت لذیذ پوسٹ پر بیٹھے تخلیق پاکستان کے جملہ مقاصد پورے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کیا آپ نے کبھی یہ تخمینہ لگوانے کی سعی فرمائی ہے کہ کتنے سول اور ملٹری افسر، دوران سروس اور بعداز ریٹائرمنٹ، ظاہری وسائل سے کہیں بڑھ چڑھ کر زندگی گزار رہے ہیں؟ آپ زیادہ دور مت جائیں کیس سٹڈی کے طور پر پچھلے تین عدد چیئرمین ریلوے، سیکرٹری پانی و بجلی، مواصلات و پروڈکشن وغیرہ پر فوکس جما کر دیکھیں، آپ کو کافی کچھ ملے گا، لکھنے کو اور بولنے کو۔ اسی طرح صوبہ پنجاب اور سندھ کے وہ سیکرٹری صاحبان جو کلیدی (مراد زیادہ بجٹ والے) محکموں کے انچارج رہے ہیں، ذرا انہیں بھی کھنگال کر دیکھ لیں، یہ احباب آپ کو حیران کرکے رکھ دیں گے، اور پھر چلتے چلتے ذرا پچھلی حکومت کے آخری پانچ سالوں میں خرچ ہونے والے ان 16 ارب روپے کا حساب کتاب بھی چیک کریں جو صرف محکمہ انفرمیشن نے اشتہارات کی شکل میں پھونک ڈالے۔
پہلے ان معاملات پر غور کر لیں، وزیر بیچارے تو ان کے مقابلے میں سب کے سب حاجی ثنااللہ ہیں ! !