”جعلی“ ڈگری ہولڈز کا مستقبل توقعات و خدشات

Aug 13, 2010

کرنل (ر) اکرام اللہ
مختلف اندرون ملک اور بیرون ملک یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں کی چھان بین اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ماہرین کی سطح پر ایکڈیمک اور قانونی پہلووں پر تحقیقات اور غور کے مرحلوں سے گزر کر 47 ممبران قومی و صوبائی اسمبلیوں کے منتخب نمائندوں کو ڈگریاں فیک یا Invalid یعنی جعلی پائی گئی ہیں ایسے حضرات و خواتین کی یہ پہلی قسط ہے کیونکہ تقریباً آٹھ سو ممبران اسمبلی کی چھان بین کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوا۔ دیکھیں یہ پراسیس کب پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے کیونکہ موجودہ تحقیقات صرف ممبران اسمبلی کی BA کی ڈگری اصلی یا جعلی ہونے کی چھان بین تک محدود ہے ۔ قارئین کرام ملک کے ہر حصہ میں ہر روز کسی نہ کسی رنگ میں ملاحظہ کرتے ہیں۔ چنانچہ بعض حلقوں نے بعض مقاصد کے حصول کے لئے بعض ممبرانِ قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کی ڈگریوں کے جعلی ہونے کی چھان بین کا مطالبہ کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ معاملہ جنگل کی آگ اور سیلاب کے ریلے کی طرح پھیلنا شروع ہوا۔ اسمبلیوں کی ڈگریوں کی چھان بین کے بعد ”کس کے گھر جائے گا طوفان بلا“ اور کس کس محکمے کے لاکھوں عہدیداروں کی ڈگریوں کی چھان بین کا انجام کیا ہو گا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
”بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے“
47 ممبران جن کی تفصیلات ہائر ایجوکیشن کمیشن نے چیف الیکشن کمشنر کو ارسال کر دی ہیں کا جائزہ لیا جائے گا۔ یہ ایک ابتدائی ٹسٹ کیس ہے جس سے پوری پاکستانی قوم کی کئی توقعات اور خدشات وابستہ ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے مزید کارروائی کے لئے جو طریقہ کار وضع کیا ہے وہ کچھ یوں ہے (1) الیکشن کمیشن کے ایک سینئر عہدیدار کویہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ فیک یا Invalid ڈگری رکھنے والے 47 ممبران کو فرداً فرداً اس نامزد اعلیٰ عہدیدار کے سامنے پیش ہو کر اس کی ڈگری کے فیک یا Invalid ہونے کے بارے میں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔صاف ظاہر ہے ملزم ممبر اپنی صفائی میں تحریری عرض گزارش پیش کرے گا غالباً وہ بہت سے اعتراضات اور شاید کچھ گواہ پیش کرنے کی بھی اجازت اور یونیورسٹیوں اور ہائر ایجوکیشن میں بھی بعض دستاویزات ملاحظہ کرنے کی بھی درخواست کرے اور بعض متعلقہ عہدیداروں کو کراس اگزامینیشن بھی کرنا چاہیے۔ یقیاً اس موقع پر کوئی نہ کوئی چوٹی کا وکیل بھی اس کا کیس لیڈ کرے گا چنانچہ 47 ممبران کے اس مرحلہ سے گزرنے کے لئے کتنا وقت لگے گا کچھ کہنا مشکل ہے۔ میں نہایت ادب سے فاضل چیف الیکشن کمشنر کے دفتر کے اس ٹائم فریم سے اتفاق نہیں کرتا کہ کارروائی اگلے ایک ہفتہ یا دس دن تک مکمل کر لی جائے گی لیکن اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ مشکل مرحلہ بھی بروقت طے کر لیا لیکن ملزمان ممبران کا موقف سن لینے کے بعد ہر کیس کا فیصلہ کون کرے گا۔ کیا چیف الیکشن کمشنر کا نامزد اعلیٰ افسرجس نے ملزم کی صفائی کا کیس سنا ہے واحد ٹرابیونل کی حیثیت میں متعلقہ ممبر کو اس کی اپیل خارج کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کو متعلقہ ممبر کو Disqualify کرتے ہوئے اس کے حلقہ انتخاب میں ضمنی انتخاب کی سفارش کرے گا، کیا یہ مناسب نہیں کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے الیکشن کمیشن کے کم از کم دو اور بہتر ہے کہ تین اعلیٰ عہدیداروں پر مشتمل Tribunal متعلقہ 47 ممبران کی اپیلوں کو سنتا تاکہ ان ممبران کی صفائی بلکہ سیاسی مستقبل کا فیصلہ ایک شفاف عمل سے گزرتا۔ کہا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے بعد ان کے خلاف متعلقہ ضلع کے سیشن جج کے پاس فوجداری مقدمہ کی صورت میں پیش کر دیا جائے گا لیکن اس فیصلہ پر عمل درآمد ہوتا مجھے اس لئے نظر نہیں آتا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے مطابق جو اس وقت سپریم کورٹ میں زیر بحث ہے یہ طے ہو چکا ہے اس ترمیم کے تحت قومی اسمبلی کی ایک پارلیمنٹری کمیٹی تشکیل دی جائے جو چیف الیکشن کمیشن میں عدلیہ کے ریٹائرڈ جج صاحبان کو باحیثیت ممبر ہونے کی منظوری دے گی۔ ایسی پارلیمانی کمیٹی چیف الیکشن کمیشن کی باضابطہ تحریری درخواست کے باوجود سپیکر قومی اسمبلی نے تشکیل نہیں دی چنانچہ یہ سارا معاملہ اس امید کے ساتھ مشروط ہے کہ ”کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک“ چنانچہ قوم کی ان توقعات کے برعکس ناصرف اسمبلیوں کے ممبران کی چھان بین کا عمل جلد از جلد مکمل ہو بلکہ تمام سرکاری و غیر سرکاری شعبوں میں کسی بھی ملازمت میں تقرری سے قبل جعلی ڈگریوں کی بندش کا موثر اور شفاف طریقہ کار وضع کیا جائے تاکہ معاشرہ میں ہر قسم کی گندگی کی تطہیر ہو سکے۔ موجودہ صورت حال کے پیش نظر خدشات کے سیاہ بادل ایک ایسے مضبوط نظام اور قیادت کا تقاضا کرتے ہیں جو علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے تصورات کے مطابق ایک جدید اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست کی طرف پیش قدمی کر سکے۔
مزیدخبریں