اگر آپ ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ پر یہ بات واضح طور پر عیاں ہو جائے گی کہ جتنے بھی حملے اس ملک پر ہوئے، وہ مغرب کی طرف سے تھے۔ محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، خاندان غلاماں، شیرشاہ سوری، ظہیر الدین بابر جتنے بھی مسلمان بادشاہ تھے، وہ سارے کابل کے راستے حملہ آور ہوتے رہے اور انہوں نے پورے ہندوستان کو فتح کر لیا اور کئی برس انہوں نے پورے ملک پر حکومت کی۔ کوئی حملہ آور مشرق سے نہیں آیا۔
1947ءمیں جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو تب بھی بقول قائداعظم کے حکم کے مطابق فوج کو اس بارڈر سے فوری ہٹانے کا حکم جاری ہوا کیونکہ ہمارے قائد بالکل مطمئن تھے کہ ہمارے قبائلی لشکر اس علاقے کی حفاظت کیلئے کافی ہیں لہٰذا پاکستانی فوج کی وہاں ضرورت نہیں ہے۔ بقول ان کے ہمارے قبائلی لشکر اتنے بہادر، جنگجو اور پاکستان کے وفادار ہیں کہ وہ پورے قبائلی علاقے کی اچھے طریقے سے حفاظت کر سکیں گے او یہ بات انکی بالکل درست ثابت ہوئی بلکہ ان قبائلی لشکروں نے پاکستان کی جنگ کشمیر میں لڑ کر آزاد کشمیر فتح کیا جو کہ اب پاکستان کا ایک حصہ ہے۔
اب پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کا جو نیا پلان سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل نے فاٹا کے بارڈر کے علاقے کے لوکل جوانوں کو جو کہ بیروزگار تھے، افغان فوج میں بھرتی کرنا شروع کر دیا ہے اور چترال ضلع کے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد افغان فوج میں شامل ہو گئی ہے اور NATO فوج کی بھی مدد کر رہی ہے ۔وہ افغانستان میں فوجی نوکری کر رہے ہیں۔ ARANDO کے علاقے سے جو لوگ افغان فوج میں بھرتی ہوئے تھے اب ہمارے لوگ کوشش کر رہے ہیں کہ وہ جوان نوکری چھوڑ کر واپس چترال آ جائیں۔
اسی طرح کی فوجی بھرتی بلوچستان میں بڑے عرصے سے منظم طریقے سے ”بلوچستان آرمی“ کی شکل میں اتحاد ثلاثہ نے ایک مربوط پلان کے مطابق اچھی خاصی بلوچ آرمی پورے صوبہ میں تیار کر لی ہوئی ہے جو کہ وقتاً فوقتاً پورے صوبے میں دہشت گردی کی وارداتیں کرتی رہتی ہے اور اب یہ ایک اچھی خاصی مضبوط فورس بن گئی ہوئی ہے جس کی ٹریننگ اسلحہ اور پیسہ، ڈالروں کی چمک نے جو کابل میں افغان حکومت، امریکی اور بھارت کےساتھ ملکر کر رہی ہے۔ یہ فورس انکی وفادار ہے اور پاکستان سے آزادی کا نعرہ لگا کر آزاد رہنا چاہتی ہے۔ مشرقی بارڈر پر بھارت نے اپنی فوج کو نئے اسلحہ کے ساتھ میدان میں اتار دیا ہے۔ ہوائی فوج بھی بارڈر کے قریب اڈوں پر تعینات کر دی گئی ہے۔ نیول فلیٹ تو بھارت کا ہر وقت کراچی بڑھنے کی طرف تیار رہتا ہے اور ان کو ہماری نیول طاقت پر بہت زیادہ فوقیت حاصل ہے۔ کشمیر میں 8 لاکھ بھارتی فوجی اپنے پکے اڈے جمائے ہوئے ہمارے کشمیری بھائیوں پر ظلم کر رہے ہیں۔ بھارت کی فوج سیاچن کی بلند ترین چوٹی پر بھی کافی عرصہ سے قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔ اسکے ساتھ بھارت نے ہمارے ملک کےخلاف آبی جارحیت کر دی ہوئی ہے اور سارے دریاﺅں کا کنٹرول انکے پاس ہے۔ اب وہ تجارت کے نام پر پاکستان پر معاشی جارحیت کرنا چاہتا ہے۔ ہندو اصل کاروباری مشہور ہے اور وہ کبھی نقصان کا سودا نہیں کرتا ہے۔ اب اس نے پاکستانی تاجروں کو بھارت میں سرمایہ کاری کی اجازت دیدی ہے اسکے بدلے وہ اب پاکستان میں اپنے بنیا تاجروں کی سرمایہ کاری کرنے کی اجازت مانگے گا جو کہ اس کو آسانی سے مل جائے گی تو وہ معاشی قبضہ کرنے میں جلد کامیاب ہو جائے گا۔
سفارتی سطح پر امریکہ، بھارت اور اسرائیل نے پاکستان کو بالکل تنہا کر دیا ہے اور ہم اس وقت دہشت گرد، فیل سٹیٹ کے زمرے میں آئے ہوئے ہیں، اب اس سے اگلا ہدف ہمیں ایٹمی قوت سے محروم کرنا ہے جس پر بڑی تیزی سے کام جاری و ساری ہے۔ یہ نقشہ ہے ہماری بیرونی حالت کا۔ ہم ہر طرف سے گھرے ہوئے ہیں اور ہماری سیاسی قیادت پر کسی ملک کو اعتبار بھی نہیں ہے۔
ملک کے اندر یہ حالت ہے کہ حکومت عدلیہ سے ٹکرا رہی ہے اور اس کے کسی فیصلہ پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ ادارے آپس میں ٹکرا رہے ہیں، سیاسی لیڈران ایکدوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں، ایکدوسرے کو کرپٹ اور ملک دشمن کا لقب دے رہے ہیں۔ کوئی لیڈر باﺅنسر پھینک کر دوسرے لیڈر کو آﺅٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ دوسرا لیڈر چھکا لگا کر میچ جیتنا چاہتا ہے۔ آپس میں سیاست نہیں ہو رہی ہے، کرکٹ کا میچ میلہ ہو رہا ہے۔ آپس میں ذاتی حملے ہو رہے ہیں، بیٹیوں، بیویوں کی باتیں ہو رہی ہیں جو کہ بڑی شرمناک بات ہے۔ کوئی گریس نہیں رہی ہے۔ وہ خاندانی قدریں کدھر چلی گئی ہیں؟ خاندانی لوگ ایسی باتیں نہیں کرتے۔ ایک دوسرے کو چور اور ڈاکو کے الفاظ سے نوازا جا رہا ہے ۔
بیرونی دستک اب اندرون خانہ پوری آواز کے ساتھ سنائی دے رہی ہے لیکن ہماری سیاسی، فوجی قیادت اس انتہائی خطرناک حالت کو شائد پوری طرح سمجھ نہیں رہی ہے یا وہ منتظر ہے کہ خطرے کی گھنٹی بج جائے۔ اللہ نہ کرے کہ وہ وقت آئے لیکن نقشہ ہمارے سامنے ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دلی دعا ہے کہ ہمارے تمام اداروں کو راہ راست پر چلنے کی توفیق دے اور ہمارا ملک ان بیرونی، اندرونی خطرات سے جلد نکل جائے۔ آمین! لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے اور تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مغربی بارڈر سے ہندوستان پر حملہ ہوا ہے وہ بڑا خطرناک ثابت ہوا ہے اور حملہ آوروں نے پورے ہندوستان کو فتح کر لیا لہٰذا ہماری قیادت کو بڑا محتاط اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم مغرب اور مشرق کے دشمن کے فوجی پلان کے مطابق کہیں ”سینڈوچ“ نہ ہو جائیں۔ بھارت جو ہم پر کشمیر میں دخل اندازی کا الزام لگاتا تھا اس کا جواب واضح الفاظ میں فاٹا اور بلوچستان میں دخل اندازی کر کے ہمیں امریکہ کے ساتھ ملکر غیرمستحکم کر رہا ہے۔ بھارت کابل کی بیساکھیوں کا سہارا لیکر امریکہ کی چھتری کے سایہ میں پاکستان پر مغربی بارڈر سے حملہ آور ہو رہا ہے۔ C.I.A کے جاسوس خاص طور پر ’را‘ اور ’موساد‘ کے ساتھ ملکر پاکستان کی رٹ کو فاٹا اور بلوچستان میں کمزور کرنے میں دن بدن کامیاب ہو رہے ہیں۔ پاک فوج کو فاٹا یا بلوچستان میں امریکہ سے جو ٹرینر ان علاقوں میں ٹریننگ کی غرض سے آئے ہوئے ہیں وہ تمام جاسوس ہیں اور ہماری فوج کے جوانوں یا افسروں کو ان سے کسی قسم کی ٹریننگ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ سارے C.I.A کے ایجنٹ ہیں جو روپ بدل کر ہمیں ان علاقوں میں غیر مستحکم کر رہے ہیں۔ ان کو پہلے فوج نے نکالا تھا اب امریکہ پھر کوشش میں ہے کہ نئی کھیپ ان علاقوں میں بھیجی جائے تاکہ ان کا کام چلتا رہے۔ شائد کچھ امریکن ایجنٹ پہلے کی کھیپ میں بھی رہ گئے تھے، انکو فوری طور پر ملک بدر کیا جائے ۔اب ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کو اس سنہرے اصول پر عمل کرنا ہو گا کہ کسی ملک خاص طور پر امریکن مالی یا فوجی امداد کو ملک کی سالمیت کے ساتھ کمپرومائز نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر بہت مضبوط رہنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ پاک سرزمین کو دشمن کے شر سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔ آمین!