جس طرح کسی بھی شخص کی طبیعت کسی بھی وقت خراب ہو سکتی ہے اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سردیوں کے آتے ہی پرانے زخموں میں درد کی لہریں ضرور اٹھتی ہیں بالکل اسی طرح جب بھی انڈیا میں انتخابات کا موسم اور اگست کا مہینہ آتا ہے تو انڈیا کی پاکستان کے بارے میں معتصبانہ لہروں اور دردوں کا سیلاب سرکاری سطح پر امڈ پڑتا ہے۔ دوسری طرف چین لداخ کے 37 کلو میٹر کے علاقے پر قبضہ کرلے جو بھارت کے اندر ہو تو انڈیا کی اتنی بھی جرا¿ت نہیں ہوتی کہ اس کے خلاف کوئی احتجاج کرے۔ ان حالات میں بھی اس نے نہ صرف اپنے وزیر خارجہ سلمان خورشید کو چین بھیجا بلکہ چین کے نئے وزیراعظم کو بھی بھارت کے دورے پر خوش آمدید کہا اور جب سرحدی دراندازی کا تذکرہ کیا تو چین نے کہاکہ سرحدی تنازعہ حل کرنا ضروری ہے۔ ان دنوں پاکستان کے وزیراعظم محمد نوازشریف اقتدار میں آنے کے بعد پہلی بار چین کا دورہ کر رہے تھے۔ بھارت نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے وزیر دفاع کو انہی دنوں چین کے دورے پر بھجوا دیا۔ بھارت کے ”پولٹ بیورو“ (تھنک ٹینک) کا خیال تھا کہ اس طرح میڈیا بھارت کے وزیر دفاع کو اہمیت دے گا تو پاکستان کے وزیراعظم کے دورے کی اہمیت کم ہو جائے گی۔ لیکن پاکستان اور چین کی دوستی تو اٹوٹ ہے یہی سبب ہے کہ چین کے وزیر دفاع نے بھارت کو پیغام دیا کہ وہ کوہ ہمالیہ کے ہزاروں کلو میٹر علاقے کے بارے میں پہلے فیصلہ کیا جائے جسے چین اپنا حصہ سمجھتا ہے اور یوں بھارتی وزیر دفاع منہ لٹکا کر کھوٹے سکے کی طرح واپس آئے تو بھارتی میڈیا نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ اب اس وقت تازہ ترین بھارتی پروپیگنڈہ مہم جوئی بھی ٹائیں ٹائیں فش سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ پہلے بھارت نے شرارت کرتے ہوئے چند پاکستانی فوجیوں کو تختہ مشق بنایا۔ بعد میں بھارتی فوجیوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا تو بھارتی حکمرانوں نے سچ برملا کہہ دیا۔ بھارتی وزیر دفاع نے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ کام پاکستانی فوجیوں نے نہیں کیا بلکہ پاک فوج کی وردی ضرور استعمال کی گئی ہے۔ بس اتنے سے بیان نے چائے کی پیالی سے زیادہ میڈیا پر طوفان برپا کر دیا۔ بھارتی انتخابات کا موسم شروع ہو چکا ہے اور بی جے پی نے ہر محاذ پر کانگریس کے ساتھ لڑائی شروع کر دی ہے۔ چنانچہ اس بیان کو بھارتی پارلیمنٹ میں خوب اچھالا گیا اور کانگریس سے سابق بھارتی وزیر اطلاعات شسما سوراج نے سوال کیا کہ کانگریس بتائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہے یا بھارت کے ساتھ؟ یہاں مسئلہ گھمبیر ہوتا دیکھ کر کانگریس نے ”راج پتی“ کی پرانی روایت دہراتے ہوئے اپنا بیان واپس لے لیا بلکہ اپنے چند جوانوں کو کہا کہ وہ نہ صرف جلوس نکالیں بلکہ پاکستانی قونصل خانے پر حملہ کرنے کا ڈرامہ بھی کریں چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اب اس کے بعد میڈیا میں پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پی آئی اے کے دلی اور ممبئی آفس کو بھی دھمکیاں دی ہیں کہ وہ اپنے دفاتر بند کر کے واپس چلے جائیں جس پر آج پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک مناسب بیان جاری کیاہے کہ انڈیا پی آئی اے کے دفاتر کو سیکورٹی فراہم کرے ۔ پاکستان کا ردِعمل بہت عاقلانہ اور حکمت سے بھرپور ہے کیونکہ وہ تو اصل حقائق سے باخبر ہیں۔
اب ان حالات میں جشن آزادی پہلے سے زیادہ جوش وخروش سے منانے کی ضرورت ہے اور عید کی وجہ سے اس طرف توجہ کچھ کم ہو گئی تھی لیکن اب دو دن میں قوم نے ساری کمی پوری کر لینی ہے۔ اس مرتبہ جشن آزادی کی سب سے بڑی خوشی یہ بات بھی ہے کہ اسحاق ڈار نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کا کوئی مسئلہ سردست زیر بحث نہیں ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے عوام کی خواہشات و جذبات کا احترام کرتے ہوئے انڈیا کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے ٹھپ کر دیا ہے۔
امن کی آشا کے متوالوں کو افسوس ہو گا کہ اب بھارتی شاعر جاوید اختر نے آج سہارا چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بھارت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کو سختی سے جواب دے (جیسے پاکستانیوں نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں) دوسری طرف کیا ستم ظریفی ہے کہ اسی جاوید اختر کی بیوی اور شاعر کیفی اعظمی کی بیٹی شبانہ اعظمٰی انڈیا کے خلاف پریس کانفرنس کرتی ہے کہ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں ممبئی میں ذاتی جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ انڈیا کے مسلمان دنیا میں انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد سب سے زیادہ ہیں لیکن ان کے پاس لیڈر شپ نہیں ہے جس دن لیڈر مل گیا انڈیا میں دوسرا پاکستان بن جائے گا۔