سپریم کورٹ آف پاکستان کو ٹارگٹ کرنے اور اس کی توہین کرنے، جس کا اندازہ فیصل رضا عابدی، زید حامد اور سینٹ کے حالےہ اجلاس سے لگایا جاسکتا ہے جس میں ججوں کو کھل کر گالیاں دی گئیں کے واقعہ پر عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے کسی طرح کا ردِ عمل فوراً سامنے نہیں آیا۔ لےکن تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے کہے گئے الفاظ نے معزز ججوں کو مشتعل کر دیا اور اس پر انہوں نے توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔ اعتزاز احسن نے ےہ اشارہ تک دے دیا ہے کہ وہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی دسمبر میں ریٹائرمنٹ کے بعد وہ صدارتی انتخاب کو کالعدم کرانے کیلئے آئینی پٹیشن دائر کرینگے اور وہ اپنا مقدمہ جیت جائیں گے۔ مطلب واضح ہے کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد اعلیٰ عدالت نرم روےہ اختیار کرے گی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کئی سال سے پیپلزپارٹی کے ارکان کے سخت جملوں کو نظر انداز کر رہی ہے ۔ اعتزاز احسن کی جانب سے عمران خان کا کیس لڑنے کی پیشکش کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عدالتوں کے خلاف کس طرح کی گہری سیاست کی جارہی ہے۔ اعتزاز احسن نے لندن اپنے گھر میں بیٹھ کر عدالتی چھٹیوں کے دوران مفت قانونی مشورے دینا شروع کر دئےے کہ عمران خان کو چاہےے کہ وہ سپریم کورٹ کے تشکیل دئےے گئے بنچ پر اعتراض کریں۔ اعتزاز احسن چاہتے ہےں کہ چیف جسٹس پر حملے کر کے سپریم کورٹ میں دراڑ ڈالی جاسکے۔ اعتزاز احسن اِسی بات کا سہارا لے رہے ہےں اور کوشش کر رہے ہےں کہ ججوں اور سپریم کورٹ کے خلاف عوام کو مشتعل کریں کہ وہ چیف جسٹس سے بغاوت کریں۔
چیف الےکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم اپوزیشن کی جانب سے شدید الزامات لگانے کے دباﺅ کی تاب نہ لاسکے اور اپنے عہدے سے مستعفٰی ہو گئے۔ اسی اثناءمیں آئین کا آرٹیکل 213کا دوبارہ استعمال کرتے ہوئے نئے چیف الےکشن کمشنر کا تقرر کیا جائے گا۔ آج کے قائد حزب اختلاف خورشید احمد شاہ جن کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی شدید تنقید کے باعث چیف الےکشن کمشنر کے استعفٰی کی نوبت آئی۔ جب وہ حکومت میں تھے تو انہوں نے ان کی تقرری کی بخوشی حامی بھر لی تھی۔ 18ویں ترمیم کے بعد چیف الےکشن کمشنر کے پاس اتنے اختیارات نہیں جتنے 18ویں ترمیم سے پیشتر تھے۔ اسی لئے ان کی تقرری کے بعد ےہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ جلد ہی اپنی سابقہ روایت کے مطابق مستعفی ہو جائیں گے۔جناب فخر الدین جی ابراہیم اےسے ادارہ کے سربراہ تھے جو ملک کے چوتھے ستون کے برابر کی حیثیت رکھتاہے۔ ترمیم شدہ آئین کے مطابق چیف الےکشن کمشنر اپنے ارکان کو قابو کرنے کے لئے کوئی اختیار نہیں رکھتے تھے۔ جس کی وجہ سے الےکشن کمیشن آف پاکستان کا اندرونی ڈھانچہ زمین بوس ہو چکا تھا۔ چاروں صوبائی الےکشن کمشنروں اور الےکشن کمیشن کے آفیسران کو گائیڈ لائن دینے والی کوئی شخصیت نہیں تھی۔ الےکشن کمیشن کا عملہ شتر بے مہار کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ جس کی وجہ سے الےکشن میں ملکی این۔جی۔اوز کی مداخلت بہت بڑھ گئی تھی۔ یو۔این۔ڈی۔پی نے جو ٹریننگ کا شیڈول تیار کیا تھا وہ محض کاغذی کاروائی تھی۔
یو۔ این۔ڈی ۔پی نے ریٹرننگ آفیسران کی تربیت کا انتظام کرنا تھا اور اسکے ساتھ ساتھ سات لاکھ کے لگ بھگ پولنگ کے عملہ کی تربیت کرنا بھی انکے فرائض میں شامل تھا۔ الےکشن کمیشن چونکہ مرکزی یونٹی آف کمانڈ سے محروم تھا۔ لہٰذا یو۔این۔ڈی۔پی پر نظر رکھنے والی کوئی انتظامی شخصیت نہیں تھی۔ الےکشن کمیشن کے ارکان نے اپنے فرائض انڈین الےکشن کمیشن کے ارکان کی طرز پر پورے نہیں کئے۔ انڈیا کے الےکشن کمیشن کے ارکان جن کی تعداد صرف دو ہے ان کی الےکشن کمیشن کی تمام مشنری پر پوری طرح گرفت ہے اور اِسی طرح تمام ریٹرنگ آفیسران انکے سامنے جواب دہ ہےں۔ ملک کے وزیراعظم سے نچلے درجے کے تمام انتظامی یونٹ الےکشن کمیشن کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے نظر آتے ہےں۔ الےکشن کے دوران تمام بیورو کریسی جو الےکشن کے انتظامات کی نگرانی کرتی ہے انکی سالانہ رپورٹ الےکشن کمیشن کے ارکان لکھتے ہےں۔ اور انکی ترقی کے موقع پر الےکشن کمیشن کے ارکان کے ریمارکس کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔
ملک میں 11مئی 2013ءکے انتخابات کے بعد شکست پانے والوں کی جانب سے چیف الےکشن کمشنر پر شدید تنقید کی۔ پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف نے اپنی شکست کا ذمہ دار چیف الےکشن کمشنر کو ٹھہرایا اسی لئے چیف الےکشن کمشنر کو پہلی دفعہ اپنی زندگی میں مذمت کا سامنا کرنا پڑا جس کی وہ تاب نہ لاسکے۔ جب فخر الدین جی ابراہیم کو عام انتخابات کرانے کی ذمہ داری دی گئی تو وہ اس کے لئے بہت کمزور تھے۔ اصولی طور پر ان کو ےہ ذمہ داری قبول نہیں کرنی چاہےے تھی۔ ابھی وہ عام انتخابات میںہارے ہوئے سیاستدانوں کی جانب سے الزامات سے نبرد آزما ہی ہوئے تھے کہ انہیں شفاف ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد بے رحمانہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ تحریکِ انصاف کے چےئرمین عمران خان اور پیپلز پارٹی نے تمام حدود کو نظر انداز کرتے ہوئے چیف الےکشن کمشنر پر الزام تراشی کرنے کی انتہا ہی کر دی ۔ حکومت نے چیف الےکشن کمشنر کا دفاع کرنا ضروری نہیں سمجھا اور جسٹس فخر الدین جی ابراہیم زمین بوس ہو گئے۔
کیونکہ 12رکنی پارلیمانی کمیٹی میں سیاسی جماعتوں کے ارکان شامل ہوتے ہےں جن کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہےں‘ اسی طرح چیف الےکشن کمشنر اور ممبران الےکشن کمیشن کا غیر جانبدارانہ تقرر مشکل ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 18ویں ترمیم کے حوالے سے 10جولائی 2010ءمیں جاری کئے گئے مختصراً فیصلے کا تفصیلی فیصلہ بھی جاری کر دینا چاہےے تاکہ حکومت کو بھی اس فیصلے کی روشنی میں مزید اقدامات کرنے کا موقع مل سکے۔ چیف الےکشن کمشنر کے استعفیٰ کے بعد اب سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری آئین کے آرٹیکل 217کے تحت قائم مقام چیف الےکشن کمشنر کا تقرر کرچکے ہےں اور انہیں ہی 22اگست کو ہونے والے ضمنی انتخابات کرنا ہوں گے جو انکی موجودگی میں 11مئی 2013سے بہتر طرےقے سے کروانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ کیونکہ فخر الدین جی ابراہیم کافی عمر رسیدہ انسان ہےں اور میرے خیال میں الےکشن کمیشن میں بہتر کام نہیں کرسکتے۔ ےہاں تک کہ عام انتخابات میں ریٹرنگ آفیسران بھی انکے دائرہ اختیار سے باہر رہے۔ وہ پوری قوم کا اعتماد لےکر آئے تھے تاہم وہ اس میں پورے نہیں اتر سکے۔ اگر وہ صدارتی انتخابات سے پہلے استعفیٰ دیتے تو عوام میں انکی بہت پذیرائی ملتی اب تمام مرحلے ختم ہونے کے بعد انکے استعفیٰ کو اےک عام سا استعفیٰ ہی سمجھا جائیگا۔
عام انتخابات میں کئی طریقوں سے دھاندلی ہوئی۔ آرٹیکل 62-63کا بھی اطلاق نہ کیا گےا اور نہ ہی الےکشن کمیشن نے الےکشن لڑنے والوں سے اخراجات کی تفصیلات حاصل کر کے ان کا آڈٹ کروایا۔ میں نے جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کو اےک خط میں تجویز پیش کی تھی کہ انتخابات میں حصہ لینے والوں کیطرف سے کئے گئے اخراجات جن کی حد صوبائی اسمبلی الےکشن کے لئے 10لاکھ اور قومی اسمبلی کیلئے 15لاکھ تھی۔ اس کاآڈٹ کروایا جائے۔ جس پر چیف الےکشن کمشنر نے کہا کہ اگر ایسا کیا گیا تو سب کے سب نااہل ہو جائیں گے۔ میں نے چیف الےکشن کمشنر کو ےہ بھی تجویز دی تھی کہ جن سیاسی پارٹیوں کے بے دریغ اشتہارات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں نظر آتے ہےں۔ اس کا آڈٹ کرایا جائے اور سیاسی جماعتوں نے الےکشن کمیشن کے ہاں پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ءکے تحت جو حسابات جمع کروائے ہےں ان سے موازنہ کروایا جائے لےکن چیف الیکشن کمشنر اخباری اعلانات کے باوجود عملی قدم نہ اٹھا سکے۔
دیانتداری سے الےکشن 2013ءکا منظر دیکھا جائے تو حقیقت ہے کہ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کو کسی سیاسی جماعت سے کسی قسم کی بھی دلچسپی نہیں تھی تو پھر حیرانگی اس امر کی ہے کہ انہوں نے اےسے طرےقے سے پورا عمل ہونے کیوں نہیں دیا کہ آج ہمارے سامنے اےک اسیا سیاسی منظر نامہ موجود ہے جس سے ہر سطح پر کوئی نہ کوئی انتخابات میں دھاندلیوں پر شکایات کر رہا ہے۔ فخر الدین جی ابراہیم کو قوم کو بتانا ہو گا کہ انہوں نے ریٹرنگ آفیسران کو اپنی مرضی کیوں چلانے دی اور حتیٰ کہ کئی مرتبہ تو ےہ حضرات اپنے اختیارات سے باہر نکل گئے تاکہ اپنی پسند کے سیاسی جماعت یا امیدوار کی مدد کر سکیں۔ اگر وہ عدلےہ کے جونیئر آفیسران کے سامنے بے بس تھے تو انہیں اس پر احتجاج کرنا چاہےے تھا جہاں انہیں ریکارڈ توڑ دھاندلی کرتے نظر آرہی تھی۔ اِسی طرح انتخابی عمران خان 28اگست کو سپریم کورٹ آف پاکستان میںاپنے مضبوط موقف پیش کرینگے۔ میں نے بطور سابق وفاقی سیکرٹری الےکشن کمیشن آف پاکستان جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کو 11مئی کے انتخابات سے بہت پہلے خطرات کی نشاندہی کر دی تھی۔ میں نے ان کو ریٹرنگ آفیسران کے بارے میںآگاہ کر دیا تھا کہ بعض ریٹرنگ آفیسران ایسا ہی کھیل کھیلیں گے جس طرح اکتوبر2002ءکے انتخابات میں کھیلا گیا تھا۔ دراصل جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کو الےکشن بیوروکریسی کا تعاون حاصل نہیں تھا۔ اورجب میں نے انکو ےہ بھی مشورہ دیا کہ وہ اےک اےسا فعال تھنک ٹینک کی تشکیل دیں جو ان کو الےکشن سے متعلق ریٹرنگ آفیسران ، انتظامےہ اور دیگر عوامل کے کردار کے بارے میں انکو بریف کرتے رہےں۔ نادرہ، یو۔این۔ ڈی۔پی اور دیگر غیر ملکی ایجنسیوں نے جو الےکشن سے متعلق الےکشن کمیشن آف پاکستان سے منسلک تھیں ۔ انہوں نے بھی اپنے فرائض دیانتدارانہ طرےقے سے سرانجام نہیں دیئے۔ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کو قوم کے سامنے سرخرو ہونے کےلئے اصل حقائق سے پردہ اٹھانا پڑیگا۔ جسٹس فخرالدین جی ابراہیم نے اپنا نام سنہری حروف سے لکھوانے کی جو کوشش کی وہ رائیگاں چلی گئی۔ مگر ان کی سادگی کا ےہ حال ہے کہ اب بھی استعفیٰ میں حقیقی وجوہات لکھتے، انتظامی، عدلےہ ، مشنری کی ڈاکی زنی اور سیاستدانوں کی گہری چالوں کا راز کھولنے کے بجائے مصلحت پسندانہ تاویلات سے کام لیا اور اپنے حامیوں کو مایوس کر کے خاموشی سے کراچی چلے گئے۔ ےہ راز تو سامنے آکر رہے گا کہ شفاف انتخابات کی قومی خواہش کیوں پوری نہ ہو سکی۔