ذرا غور تو کیجئے جناب، بھارت کے حکومتی اور اپوزیشن لیڈروں کا ایک دم سارے محاذ کھول کر پاکستان پر چڑھائی کرنے کا اصل مقصد اور ایجنڈہ کیا ہے۔ ہمارے لیڈروں کو شاید اس کی کبھی سمجھ نہیں آئے گی۔ بھارت تو آم کے آم، گٹھلی کے دام کے مصداق پاکستان دشمنی کے مقاصد بھی پورے کر لیتا ہے اور اس پاکستان دشمنی کی فضا میں اپنے زیادہ سے زیادہ کردار کو جتا کر بھارتی لیڈران اپنی انتخابی کامیابیوں کی راہ بھی ہموار کر لیتے ہیں۔ سو پاکستان ان کے لئے مشق ستم بنا ہے تو بنیا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے۔ آج ہم پر بنئے کی کرم فرمائیوں کا سارا مقصد آئندہ سال اپریل مئی میں منعقد ہونے والے بھارتی انتخابات میں بھارتی عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کا ہے جس کے لئے حکمران کانگرس اور اپوزیشن بی جے پی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں اور اپنے عوام کو یہ یقین دلانے کے جتن کر رہی ہیں کہ پاکستان دشمنی میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ کیا ہمارے قومی قائدین میں بھی کبھی یہ جذبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ وطن پرستی اور دفاع وطن کے تقاضے نبھانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے نظر آئیں۔ اس کے برعکس ہمارے ”روشن خیال“ قائدین نے تو ملک، ملت اور قومی قائدین کو گالی دے کر اپنی سیاست چمکانے کا کلچر اختیار کر رکھا ہے اور یہی ہماری وہ کمزوریاں ہیں جو ملک میں امن و خوشحالی کا خواب شرمندہ¿ تعبیر نہیں ہونے دے رہیں اور ہمارا یہی وہ چلن ہے جو دشمن کو ہر محاذ پر ہم پر وار کرنے کے سنہرے مواقع فراہم کرتا ہے۔ ہم تو بس اس ڈھکوسلے پر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے تو شروع دن سے ہماری آزادی اور خودمختاری کو قبول نہیں کیا اس لئے ہماری سالمیت کے خلاف سازشیں کرنا اس کی سرشت میں شامل ہے۔ کیا کبھی ان سازشوں کے فوری اور موثر توڑ کی بھی ہمارے قائدین کو سوجھتی ہے۔ ہم دشمن کو اس کی سرشت کے مطابق ملک کی سالمیت پر وار کرنے کا موقع فراہم کرتے رہیں گے تو کیا محض اسے دوشی ٹھہرا کر خود کو بری الذمہ قرار دلا پائیں گے۔ آپ کم از کم دشمن سے ہی اپنے قومی مفادات کی نگہداشت کرنا اور ملکی سلامتی کے تقاضے نبھانا سیکھ لیں مگر آپ تو دانستگی، نادانستگی میں دشمن کی جانب دوستی کی باہیں پھیلا کر اسی کا کام آسان بنائے جا رہے ہیں۔ چور کو سادھ سمجھے بیٹھے ہیں اور سانپ کے زہر کو مٹھاس تسلیم کرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ بھئی کبھی بھارتی لیڈروں کے حب الوطنی والے جذبے کے عشر عشیر کا ہی سہی، خود بھی مظاہرہ کر دیا کریں۔ گذشتہ دسمبر سے اب تک ہماری مسندِ اقتدار پر تین بار تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ بھارت کے لئے ہر حکمران از خود وارفتگی کے جذبے سے سرشار نظر آیا مگر بھارت کی جانب سے ہمارے پھولوں کا جواب ہمیشہ پتھر برسا کر اور مقبوضہ کشمیر میں نہتے عوام کو گولیاں سے چھلنی کر کے دیا گیا۔ جبکہ پاکستان دشمن اس جذبے میں حکومت اور اپوزیشن کی صفوں میں تمام بھارتی لیڈر یکسو ہیں۔ اگر غلطی سے کوئی حکومتی یا اپوزیشن لیڈر حقائق کی بنیاد پر پاکستان کے حق میں جانے والی بات کر بیٹھتا ہے تو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اس کا ناطقہ تنگ کر دیا جاتا ہے حتٰی کہ وہ بھی پاکستان دشمنی نبھانے والے چلن پر آ جاتا ہے۔ دسمبر سے اب تک دو سو سے زائد بار سرحدی خلاف ورزی بھارتی فوجوں نے کی مگر معتوب پاکستان کے فوجی ٹھہرائے جاتے رہے۔ ہمارے حکمران اقتدار میں آنے سے پہلے بھی اور اقتدار میں آ کر بھی بھارت سے دوستی کی مالا جپتے رہے مگر بھارت کی جانب سے سرحدی کشیدگی بڑھا کر اس کا جواب دیا جاتا رہا۔ نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشن آفس اور دوستی بسوں پر حملوں کو بھی پاکستان دشمنی والے کلچر کا حصہ بنا لیا گیا۔ اب پی آئی اے کی کسی پرواز کے بھارت پہنچنے پر اس پر حملے کے منصوبے بھی چل رہے ہیں۔ بھارت جانے والے پاکستانی کھلاڑیوں اور فنکاروں کو رسوا کرنے کی منصوبہ بندیاں بھی زیر گردش ہیں۔ دریائے ستلج میں بھارت کی جانب سے چھوڑا گیا پانی بھی سیلاب میں تبدیل ہو کر ہمارے لئے عذاب بن چکا ہے اور بھارت کی جنگی جنونی تیاریوں کو دیکھ کر تو اس کی پاکستان دشمن زہریلی سازشوں کے کامیاب ہونے کا خطرہ لاحق نظر آ رہا ہے مگر ہمارے وزیراعظم کو صرف یہ فکر لاحق ہے کہ آئندہ ماہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ان کی منموہن سنگھ سے ملاقات کیسے ممکن بنائی جائے۔ کیا ہماری حب الوطنی کی حدیں ہمارے دشمن کے سامنے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کرنا ہی ہماری حکمرانی کا ایجنڈہ ہے۔ بھارتی لیڈران تو اپنی انتخابی مہم کی بنیاد ہی پاکستان دشمنی پر رکھتے ہیں اور اسی ایجنڈے کو اپنی کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں مگر ہماری قیادتیں ”حمیت نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے“ کے عملی ثبوت فراہم کرنے کی مقابلہ بازی میں مصروف ہیں۔
جناب، کچھ تو غور کیجئے! جو بھارتی جماعت پاکستان دشمنی کا ایجنڈہ لے کر انتخابی میدان میں اترے گی وہ اقتدار میں آ کر پاکستان کے ساتھ دوستی نبھائے گی یا اپنے ایجنڈے کے مطابق پاکستان دشمنی کو مستحکم کرے گی؟ بھارتی کانگرس نے 2009ءکے انتخابات سے قبل پاکستان دشمنی کی فضا بنانے کے لئے دسمبر 2008ءمیں ممبئی حملوں کا ڈرامہ رچایا اور پھر اپنے پاکستان دشمنی والے ایجنڈے کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے اس کا میٹھا پھل کھایا۔ اب آئندہ سال کے بھارتی انتخابات سے قبل پاکستان دشمنی کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے بھارتی اپوزیشن بی جے پی پاکستان پر چڑھائی کے لئے کوئی محاذ بھی خالی نہیں چھوڑ رہی جس پر حکمران کانگرس دفاعی پوزیشن پر آئی تو اسے بھی پاکستان دشمنی کی سیاست کا دامن تھام کر اپنے عملی اقدامات کے ذریعے بھارتی عوام کو اپنے اخلاص کا یقین دلانا پڑا ہے۔ سو آئندہ بھارتی حکمران پھر کانگرس ہو یا بی جے پی، پاکستان دشمنی ان کا مشترکہ ایجنڈہ بنا رہے گا۔ اور تو اور۔ امریکہ کے تین انتخابات بھی عملاً پاکستان دشمنی کی بنیاد پر لڑے جا چکے ہیں۔ امریکی نائین الیون کے بعد بش جونیئر کو اپنی دوسری ٹرم کے لئے دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر پاکستان کے اندر زیادہ سے زیادہ آپریشن کرنے کے ایجنڈے نے کامیابی دلائی اور پھر دہشت گردی کی یہ بلا ہمارے ایسے گلے پڑی کہ اوبامہ کو اپنی دونوں ٹرموں کے لئے کامیابی کے امرت دھارے کی صورت میں دستیاب ہوئی۔ گذشتہ صدارتی انتخاب پر ری پبلیکنز نے بھی دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں پاکستان کی بنیادیں ہلانا اپنے انتخابی منشور کا کلیدی نکتہ بنایا مگر امریکی عوام نے اس معاملہ میں اوبامہ کے اقدامات کو موثر گردانا اور انہیں پھر مسند اقتدار پر بٹھا دیا چنانچہ اوبامہ اپنے عوام کا ادھار چکانے کے لئے پاکستان کی بنیادیں ہلانے کا کارنامہ بڑی جانفشانی سے سرانجام دئیے چلے جا رہے ہیں۔ اب آئندہ بھارتی انتخابات بھی ہماری بنیادیں ہلانے کے ایجنڈے پر ہونے ہیں۔ خدا خیر کرے، ”تیری بربادیوں کے تذکرے ہیں آسمانوں پر“۔