الطاف حسین کی منفی روش اور اسپیکر قومی اسمبلی

قارئین کرام ، راقم نے گزشتہ ہفتے اپنے کالم میں اِس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ الطاف حسین کی منفی روش کے باعث پاکستانی سیاست میں در آنیوالے منفی سیاسی رجحانات کا نوٹس لیا جانا ضروری ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لندن اور دبئی کے بعد سیاسی بدعنوانیوں میں ملوث اور قومی سلامتی امور پر ببانگ دہل سمجھوتہ کرنےوالے نام نہاد پاکستانی سیاستدان اپنی سیاست کا رُخ لندن و دبئی سے موڑ کر حساس قومی سلامتی امور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے غیر آئینی سیاسی اجلاس دشمن ملک بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں منعقد کرنا شروع کر دیں ؟ ماضی میں قومی سلامتی امور کو خاطر میں لائے بغیر بھارت میں پاکستانی سیاستدانوں کے حوالے سے شدت پسندی کے انفرادی واقعات نے تو جنم لیا تھا جس میں الطاف حسین کا جولائی 2001 کا دورہ¿ بھارت بھی شامل ہے لیکن قومی سلامتی امور کے منافی ایسا کوئی بھی منظم سیاسی اجلاس ابھی تک بھارت میں منعقد نہیں ہوا ہے جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ البتہ، بھارتی ایجنسیوں کے تربیت یافتہ دہشت گردوںاور بھتہ مافیا کے ایجنٹوں کے خلاف کراچی میں رینجرز کے ایکشن کے دہشتگردوں کی نشان دہی پر لمبی مدت کی تخریب کاری کے حوالے سے زمین میں دبائے ہوئے حساس اسلحہ کی برآمدگی کے چیدہ چیدہ واقعات کے بعد ایسا ہونا ممکنات میں شامل ہے ۔ چنانچہ کراچی رینجرز آپریشن کی کامیاب حکمت عملی کے سبب ایم کیو ایم عسکریت پسند اور اُنکے سرپرست بالترتیب زیر زمین روپوش ہونے اور غیر ممالک میں فرار ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں جس کا شکوہ الطاف حسین نے بھی یہ کہتے ہوئے کیا ہے کہ اُنکے متعدد ساتھی اُنکی اجازت اور اطلاع کے بغیر رابطہ کمیٹی کاساتھ چھوڑ کر ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔ یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ الطاف حسین کراچی میں اپنے کارکنوں کی روپوشی اور غیر ممالک روانگی پر محض مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں یا پھر اُن ہی کی تلقین پر یہ عسکریت پسند کارکن زیر زمین چلے گئے ہیں اور نام نہاد رہنما ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں جو اپنے قائدکے حکم پر کسی بھی وقت بھارت میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔
قرائن یہی کہتے ہیں کیونکہ ابتدائی طور پر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی جانب سے پاکستان کے اندرونی سیاسی و انتظامی معاملات میں مداخلت کےلئے فرضی اعداد و شمار کے ذریعے ڈِس انفارمیشن کو ہوا دیتے ہوئے مغربی ممالک بشمول بھارتی اداروں کو خطوط لکھنے کا سلسلہ ضرور شروع ہو گیا ہے ۔ اِسی نوعیت کا ایک خط ایم کیو ایم کی جانب سے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کو بھی بھیجا گیا ہے ۔ الطاف حسین کہتے ہیں کہ وہ ایم کیو ایم کےساتھ کی جانے والی نام نہاد زیادتیوں کےخلاف شواہد لےکر اقوام متحدہ میں جائینگے ۔ اگر الطاف حسین کے پاس معتبر اور مستند شواہد موجود ہیں تو وہ عدالت عظمیٰ کے دروازے پر دستک دینے سے کیوں نہیں دیتے جبکہ اِس سے قبل وہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کو تلقین کر چکے ہیں کہ وہ امریکہ، نیٹو اور دیگر ممالک پر پاکستان میں فوجی مداخلت پر زور دیں ۔ جس کا پاکستان کی مقتدر سیاسی جماعتوں اور اداروں نے شدت سے نوٹس لیا ہے۔ پاکستان کی تمام صوبائی اسمبلیوں بشمول گلگت بلتستان و آزاد کشمیر نے الطاف حسین کی منفی سیاسی روش کیخلاف مذمتی قراردادیں منظور کی ہیں جن میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہالطاف حسین ملک توڑنے کی سازش کر رہے ہیں لہذا اُنہیں انٹرپول کے ذریعے واپس لا یا جائے اور اُنکے خلاف غداری کے زمرے میں کارروائی کی جائے۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ الطاف حسین کے پاکستانی ہونے پر شک ہے کیونکہ کوئی محب وطن شخص دشمن ملک سے مدد مانگنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ الطاف حسین اور اُنکے حواریوں کی موجودہ منفی روش کو پیش نظر رکھتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا یہ کہنا کہ مسئلہ رینجرز یا فوج کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ الطاف حسین کے نفرت انگیز منفی بیانات ہیں جس کے سبب کراچی میں امن قائم کرنے میں دشواری حائل ہوتی رہی ہے ۔ یہ اَمر بھی معنی خیز ہے کہ ایم کیو ایم پنجاب سے تعلق رکھنے والے بیشتر رہنماﺅں نے ملک مقصود احمد اعوان کی قیادت میں ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی ایجنڈے پر کام کرنے والی پارٹی کےساتھ مزید چلنا ممکن نہیں رہا ۔ اسّی کی دہائی سے ایک تسلسل سے آنے والی سیاسی حکومتوں نے الطاف حسین کے مذموم عزائم کو سمجھنے کی قرار واقعی کوشش نہیں کی ۔ الطاف حسین اور اُنکے حواریوں کیخلاف سینکڑوں مقدمے درج ہوئے لیکن مخصوص سیاسی مفادات اور حکومتوں کو گرانے، ہٹانے اور بنانے کے حوالے سے الطاف حسین اور اُنکے حواری جرائم کو سیاسی رنگ دیکر مقدمات سے بچتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ بدنام زمانہ " این ۔آر۔ او تو سابق صدر پرویز مشرف اور شہید بے نظیر بھٹو کے درمیان سیاسی مفاہمت کے طور پر سامنے آیا تھا لیکن پیپلز پارٹی والے دیکھتے ہی رہ گئے چنانچہ اِس کا تمام تر فائدہ ایم کیو ایم نے مشرف کا ساتھ دینے کے نام پر اُٹھایا اور الطاف حسین نے اپنے اور ایم کیو ایم کے مقامی رہنماﺅں کے خلاف درج سینکڑوں مقدمات کو بڑی تیزی سے این آر او کے تحت ختم کر ا نے میں کامیابی حاصل کی۔
حیرت کی بات ہے کہ ایک ایسے ہی حالیہ سیاسی و انتظامی منظر نامے میں جبکہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم مافیا ، نیٹو افواج اور بھارتی ایجنسی ، را، کو کھلم کھلا پاکستان میں مداخلت کی دعوت دیتے نظر آ رہے ہیں اور جسکی مذمت میں نہ صرف اہم حکومتی وزرا¿ پیش پیش ہیں بلکہ ارکانِ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں قومی سلامتی امور کے منافی سرگرمیوں پر الطاف حسین پر غداری کے مقدمات قائم کرنے کا تواتر سے مطالبہ کر رہی ہیں تب میڈیا رپورٹس کےمطابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو ڈی سیٹ کرنے کی قرارداد کی واپسی کےلئے برطانوی شہری الطاف حسین سے رابطہ قائم کرتے ہیں اور ایم کیو ایم کے جمہوری کردار کو قابل ستائش قرار دیتے نظر آئے۔ یہ اَمر انتہائی ناقابل فہم ہے کہ اسپیکر صاحب اسمبلی قواعد و ضوابط کےمطابق اپنی آئینی ذمہ داری کو محسوس کر تے ہوئے قرارداد پر اکثریت رائے سے فیصلہ لینے کے بجائے الطاف حسین کے جمہوری کردار کو سراہتے ہوئے قرارداد کی واپسی کی درخواست کیوں کرتے رہے۔ سوال یہی ہے کہ کیا وزیراعظم کی ہدایت پر ایسا کیا گیا یا اسپیکر صاحب نے اپنی آئینی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کرتے ہوئے غداری کے الزامات سے لپٹے الطاف حسین کو قوم کی متفقہ آواز کے برعکس یہ ستارہ جمہوریت عطا کیا ؟ یہی وہ سوال ہے جو قوم اسپیکر صاحب سے پوچھنے کی متلاشی ہے ۔

ای پیپر دی نیشن