اسلام آباد/ کراچی (خبرنگار خصوصی+ وقائع نگار+ بی بی سی+ نوائے وقت رپورٹ) کراچی میں جاری رینجرز کے آپریشن پر تحفظات کے باعث ایم کیو ایم کے ارکان سینٹ، قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی نے استعفے دیدیئے۔ قومی اسمبلی میں 24 ارکان کے استعفے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سندھ اسمبلی میں متحدہ کے 51 ارکان کے استعفے سپیکر صوبائی اسمبلی آغا سراج درانی کو پیش کئے گئے جبکہ سینٹ کے 8 ارکان نے سینٹ سیکرٹریٹ میں استعفے جمع کرائے۔ 41 ارکان صوبائی اسمبلی نے پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہار الحسن کی قیادت میں 51 ارکان کے ہاتھ سے لکھے ہوئے استعفے سپیکر کو ان کے دفتر میں پیش کئے۔ قومی اسمبلی میں متحدہ کے ارکان کی تعداد 24 ہے جن میں چار خواتین اور ایک اقلیتی رکن بھی شامل ہے۔ ایم کیو ایم کے ذرائع کے مطابق ان کے دس ارکان صوبائی اسمبلی ملک سے باہر ہیں اور اسی وجہ سے استعفے پیش کرتے وقت وہ موجود نہیں تھے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق پاکستان کے منتخب ایوانوں میں موجود اپنے نمائندوں کے استعفے پیش کرنے کا فیصلہ کراچی میں جاری رینجرز کے آپریشن کے خلاف احتجاج کے طور پر کیا گیا۔فیصلہ لندن میں رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں طویل غور و خوض کے بعد کیا گیا۔ بی بی سی کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ کے قومی اسمبلی میں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر ریحان ہاشمی نے کہا کہ جب کراچی اور حیدر آباد جیسے بڑے شہروں کی نمائندگی کرنے والی جماعت اپنے ووٹر کو تحفظ نہیں دے سکتی تو انہیں قانون ساز اداروں میں بیٹھنے کا کوئی حق نہیں، انہوں نے کہا کہ اگرچہ کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن متحدہ قومی موومنٹ کی درخواست پر ہی شروع کیا گیا تاہم انہیں کیا معلوم تھاکہ ان کی جماعت کے کارکنوں کو ماورائے عدالت قتل کردیا جائےگا اوران کی لاشیں مختلف علاقوں سے برآمد ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ ایم کیو ایم کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں پر غیراعلانیہ پابندی عائد کردی گئی ایم کیو ایم کے دو درجن سے زیادہ کارکنوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا اور 150 کے لگ بھگ کارکن لاپتہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سمیت تمام فورمز پر درخواستیں دیں مگر کہیں بھی شنوائی نہیں ہو رہی اسی لئے ایم کیو ایم نے مجبور ہو کر یہ فیصلہ کیا۔ قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار نے قومی اسمبلی‘ سینٹ اور سندھ اسمبلی سے ایم کیو ایم کے ممبران کے استعفوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ کراچی آپریشن میں ایم کیو ایم کو انتقام کا نشانہ بنانے‘ الطاف حسین کی لائیو تقاریر پر پابندی عائد کرنے اور کارکنوں کے ماورائے عدالت ہلاکتوں اور کارکنوں کو لاپتہ کرنے کی وجہ سے کیا گیا‘ ایم کیو ایم کی سیاسی اور جمہوری سرگرمیوں پر رینجرز نے غیراعلانیہ پابندی عائد کردی ہے‘ دیوار کے ساتھ لگایا جارہا ہے‘ کراچی میں ایم کیو ایم کو نشانہ بنا کر رینجرز تحریک انصاف کے لئے راستہ ہموار کر رہی ہے۔ فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم اسمبلی کی چوتھی‘ سینٹ کی تیسری اور سندھ اسمبلی کی دوسری بڑی پارلیمانی جماعت ہے‘ ایم کیو ایم کی پارلیمانی پارٹی کے طویل اجلاس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کراچی اور اندرون سندھ ایم کیو ایم کے خلاف جو زیادتیاں ہورہی ہیں‘ آئینی‘ قانونی اور جمہوری حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے‘ آپریشن کی آڑ میں ایم کیو ایم کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، کارکنوں کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ گھروں اور دفاتر پر چھاپے مارے جارہے ہیں‘ ایم کیو ایم کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں پر غیراعلامیہ پابندی عائد کردی گئی ہے، 150 کارکنان کو رینجرز اور پولیس نے گرفتار کیا اور عدالت میں پیش کئے بغیر زیر حراست رکھا گیا‘ وزیر داخلہ نے کہا کہ کراچی میں کارروائیاں الطاف حسین کی تقاریر کے جواب میں کی جا رہی ہیں‘ ایم کیو ایم کے قاتلوں کو کیوں گرفتار نہیں کیا جارہا۔ جرائم میں کمی کی وجہ بڑے بڑے مجرموں کا ملک سے فرار ہے۔ اگر کسی کو غیر قانونی طور پر کراچی کا مینڈیٹ دلوانے کی کوشش کی گئی تو اس کا سخت ردعمل ہوگا۔ عدالتوں سے بھی انصاف نہیں ملا، قیدیوں کے اعترافی بیانات کون دلوا رہا ہے اور میڈیا ٹرائل کا موقع فراہم کر رہا ہے، آرمی چیف‘ کور کمانڈر سے ملاقات کا وقت مانگا لیکن نہیں دیا گیا۔ ایم کیو ایم کے ساتھ تیسرے درجے کے شہریوں والا سلوک ہورہا ہے، جوڈیشل کمشن بنایا جائے ہم اس بارے سارے ثبوت پیش کردینگے۔ آج ہم نے قومی اسمبلی‘ سینٹ اور سندھ اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ عمران خان‘ اچکزئی‘ زرداری اور دیگر رہنما فوج کے خلاف کھلی تقاریر کرتے رہے صرف الطاف حسین کی تقریر پر ہمارے خلاف انتقامی کارروائی شروع کی گئی، نائن زیرو پر چھاپے پر جوڈیشل کمیشن بنا دیا جائے پکڑا گیا اسلحہ قانونی تھا غیر قانونی اسلحہ کہہ کر زبردستی ہمارے کھاتے میں ڈالا گیا۔ یہ ایوان اس کا بزنس آپ کو مبارک‘ حب الوطنی بھی آپ کو مبارک میں غداری کا سرٹیفکیٹ لے کر چلا جاتا ہوں۔ متحدہ کے ارکان پاکستان زندہ باد، قائداعظم زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے۔ قائد حزب اختلاف خواجہ اظہارالحسن نے ایم کیو ایم کے 51 ارکان سندھ اسمبلی کے استعفے سپیکر سندھ اسمبلی کو پیش کئے۔ اس موقع پر ایم کیو ایم کے ارکان نے الطاف حسین کے حق میں نعرے بھی لگائے۔ خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ استعفے بادشاہت کے خلاف ہیں۔ منتخب نمائندوں کو ایوان میں اپنا موقف پیش کرنے کا حق نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے پورے سندھ کے فنڈز کھا لئے۔ غیر حاضر ارکان بعد میں اپنے استعفے جمع کرائیں گے۔ اس موقع پر سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے کہا کہ پہلے تو میری ایم کیوایم والوں سے اپیل ہے کہ استعفے واپس لے لیں۔ انہوں نے استعفے کی منظوری کے حوالے سے بتایا کہ پہلے سکروٹنی کریں گے کہ استعفے کسی نے گن پوائنٹ پر تو نہیں لئے، پھر ہر رکن کے سائن کی بھی تصدیق کی جائے گی، کوئی جلدبازی نہیں، پورا طریقہ بروئے کار لایا جائے گا۔ سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے کہا ہے کہ آج قانونی ٹیم استعفوں کا جائزہ لے گی، فی الحال فوری طور پر استعفے منظور نہیں کئے جا سکتے۔ دریں اثناءترجمان قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ سپیکر کی جانب سے استعفوں کے حوالے سے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ ذرائع الیکشن کمشن کا بھی کہنا ہے کہ اسمبلی سیکرٹریٹ سے کوئی استعفیٰ موصول ہوا نہ ہی کوئی نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ دریں اثناءذرائع کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق ایم کیو ایم کے ارکان کے استعفوں کا نوٹیفکیشن تیار کر لیا گیا تاہم ابھی جاری نہیں کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق استعفوں کی منظوری کے طریقہ کار کے تحت سپیکر ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی تصدیق کے بعد ایوان کو آگاہ کریں گے۔ سیکرٹری قومی اسمبلی ارکان کے استعفوں کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کریں گے۔ گزٹ نوٹیفکیشن کی کاپی الیکشن کمشن کو بھیجی جائے گی۔ استعفوں کا اطلاق ان پر درج تاریخ سے کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ ایم کیور ایم کے ارکان کے استعفے وصول کر لئے ہیں، استعفوں کا آرٹیکل 64 اور رول 18 کے تحت جائزہ لیا جا رہا ہے۔ قانونی تقاضے پورے کئے بغیر استعفے منظور نہیں کئے جا سکتے۔ رضاربانی کا کہنا تھا کہ تصدیق کا مرحلہ بعد میں آئے گا ابھی کاغذی کارروائی کی جارہی ہے اگر منظور کئے گئے تو الیکشن کمشن کو ڈی سیٹ کرنے کاکہیں گے۔ 41 ارکان سندھ اسمبلی نے خود سپیکر کو استعفیٰ پیش کئے جبکہ 10ارکان موجود نہیں تھے۔ ان میں سید فیصل علی سبزواری، محمد ارتضیٰ، عدنان احمد، اشفاق احمد منگی، خالد بن ولایت، عادل صدیقی، ارم عظیم فاروقی، عبداللہ، افتخار عالم اور محمد کامران فاروقی شامل ہیں۔ دریں اثناءوزیراعظم نواز شریف بیلاروس کے دورے سے وطن واپس پہنچ گئے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار نے وزیراعظم کا استقبال کیا۔ وزیراعظم نے چودھری نثار سے ایم کیو ایم کے استعفوں پر بات کی۔ ایم کیو ایم کے استعفوں کے معاملہ پر وزیراعظم نے اہم مشاورتی اجلاس آج دوپہر ساڑھے گیارہ بجے طلب کیا۔ اجلاس میں ایم کیو ایم کے استعفوں پر آئینی اور قانونی پہلوﺅں کا جائزہ لیا جائے گا۔ نجی ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیراعظم ہاﺅس کی جانب سے ایم کیو ایم کے استعفوں کے معاملے پر وزارت قانون سے مشاورت مانگی گئی تھی جس پر وزارت قانون نے مشورہ دیا کہ معاملے کی انکوائری ہونی چاہئے کہ کیا استعفے جینوئن ہیں؟ کسی دباﺅ کے تحت تو نہیں دیئے۔ مزید یہ بھی کہا گیا کہ استعفے انفرادی طور پر دیئے جاتے ہیں، جو استعفے ایم کیو ایم نے پیش کئے وہ اجتماع کی صورت میں دیئے اور ارکان دباﺅ میں نظر آ رہے تھے۔ تصدیق ہو گئی کہ استعفے اصل تھے لیکن رضاکارانہ طور پر دیئے گئے کہ نہیں اس کی انکوائری ہونی چاہئے۔ ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی ف کے مطابق ایم کیو ایم کو منانے کا ٹاسک مولانا فضل الرحمن کو دیا۔ سپیکر ایاز صادق نے کہا ہے کہ اگر ایم کیو ایم استعفے روکنے کی درخواست دے تو استعفے منظور نہیں کرونگا۔ قبل ازیں فضل الرحمن نے ایاز صادق سے ملاقات کر کے استعفوں کے معاملے پر بات کی تھی اور کہا تھا کہ استعفے کے معاملے پر جلدبازی نہ کی جائے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ استعفوں کا اتنا بڑا فیصلہ اتنی عجلت میں نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ایم کیو ایم نے اچانک استعفے دیدیئے۔ عام آدمی کو امن مہیا کیا جانا چاہئے، خوف کی فضا ختم ہونی چاہئے۔ ایم کیو ایم کے استعفے دینے سے سیاسی بحران کھڑا ہو جائے گا۔ سپیکر نے بتایا کہ استعفوں پر کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ایم کیو ایم کو منانے کیلئے مجھے ابھی تک کوئی کردار نہیں دیا گیا۔ سپیکر نے فون پر بتایا کہ استعفوں پر لکھا ہے کہ اس کو پراسیس کیا جائے۔ پی ٹی آئی کی طرح ایم کیو ایم کو بھی واپس لایا جائے۔ میری خواہش ہے کہ ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلیوں میں ہوں۔ سپیکر کو استعفے جمع کرانے کے بعد رکنیت ختم ہو جاتی ہے۔ بی بی سے گفتگو میں فاروق ستار نے کہا ہے کہ کراچی میں رینجرز آپریشن کی نگرانی کیلئے مانیٹرنگ کمیٹی اور ایم کیو ایم کے کارکنان کے ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدیوں پرعدالتی کمشن تشکیل دے دیا جاتا تو حالات اس نہج پر نہیں پہنچتے۔ فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم کی آئندہ حکمت عملی، ضمنی انتخابات میں حصہ لینے یا لینے کا فیصلہ آنے والے دنوں میں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ گزشتہ کئی دنوں کی صورت حال کے پیش نظر طویل غورو خوض کے بعد کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں ایم کیو ایم حقیقی اور دوسری جماعتوں کو مسلط کیا جارہاہے۔
اسلام آباد (جاوید صدیق) وزیراعظم نواز شریف ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی اور سینٹ کے استعفوں پر مسلم لیگ (ن) کے علاوہ دوسری سیاسی جماعتوں سے بھی مشاورت کریں گے۔ معتبر ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے تحریک انصاف کے ارکان کے استعفے ایسے ماحول میں بھی منظور کرنے سے گریز کیا جب تحریک انصاف حکمران جماعت کے اقتدار کے لئے ایک بڑا خطرہ بن گئی تھی اور اس نے دھرنوں کے ذریعے وفاقی حکومت کی مشینری کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔ ایم کیو ایم کے ارکان کے استعفوں کے معاملے میں حکمران جماعت اور دوسری سیاسی جماعتوں کی سوچ یہی نظر آرہی ہے کہ ایم کیو ایم کے ارکان کے استعفے منظور کرنے میں جلدی نہ کی جائے۔ ان ذرائع کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ وزیراعظم کراچی آپریشن کے دوسرے اہم سٹیک ہولڈر پاکستان رینجرز اور عسکری قیادت سے مشورہ کرکے کراچی آپریشن کو زیادہ سے زیادہ شفاف بنانے کی یقین دہانی کرا سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کی طرف سے آپریشن کا جائزہ لینے کے لئے ایک غیر جانبدار کمیٹی کے قیام کے لئے ایم کیو ایم کا مطالبہ بھی مانے جانے کا امکان ہے۔ ایم کیو ایم کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلہ حل کرنے کو ترجیح دی جائے گی۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے سپیکر کو فون کرکے مشورہ دیا ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے استعفے قبول کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں۔ پیپلز پارٹی بھی سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ارکان کے استعفے منظور کرنے سے گریز کر رہی ہے۔ دوسری سیاسی جماعتیں جن میں جماعت اسلامی بھی شامل ہے ایم کیو ایم کے ارکان کے استعفے منظور کرنے کے حق میں نظر نہیں آتیں۔ ادھر الطاف حسین نے شفاف اور غیر جانبدار آپریشن کی صورت میں استعفے واپس لینے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ وزیراعظم کی وطن واپسی کے بعد سیاسی بحران کے حل کے لئے کوئی ٹھوس پیش رفت ہو سکے گی۔
وزیراعظم مشاورت