مسلم لیگ پر تنقید ۔۔۔۔۔پی پی کے ساتھ ہاتھ کی صفائی

فرخ سعید خواجہ
مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان سیاسی کشمکش جاری ہے۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی سیاست میں فرق یہ ہے کہ مسلم لیگ ن والے ٹھنڈے رہ کر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے میں مصروف ہیں جبکہ تحریک انصاف کے پنجاب کے تمام رہنما حال مقیم لاہور مسلم لیگ ن پر لفظی گولہ باری کر کے اپنے دل کو تسکین پہنچاتے ہیں۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے ہر ہفتے اس کی بوری میں سوراخ ہو جاتا ہے۔ اور کچھ دانے بکھر جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے ایڈیشنل جنرل سیکرٹری دیوان غلام محی الدین کا پیپلز پارٹی چھوڑنا بلاشبہ پی پی پی کا بہت بڑا نقصان ہے۔ پچھلے سال ڈیڑھ سال سے پیپلز پارٹی کی رونق دیوان غلام محی الدین تھے جو تقریبات منعقد کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ دیوان غلام محی الدین بنیادی طور پر مزدور اور سیاسی کارکن میں جنہوں نے اپنی محنت اور خوش قسمتی کے بل بوتے پر موجودہ مقام حاصل کیا۔ دیوان غلام محی الدین مصروف کشمیری لیڈر غلام حسن ڈار کے کارکن تھے۔ ڈار صاحب مرحوم کے ایچ خورشید کے جانثار تھے۔ دیوان غلام محی الدین نے غلام حسن ڈار کی بہت خدمت کی اور ان کے اشاروں پر اپنی زندگی گزارتے تھے۔ غلام حسن ڈار کا انتقال ہوا تو آزاد کشمیر اسمبلی کے الیکشن میں ہی ان کا صاحبزادہ حصہ لینے کا خواہاں تھا لیکن ڈار صاحب مرحوم کی بیوہ نے اپنے صاحبزادے کو ایسا کرنے سے روک دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دیوان غلام محی الدین کا حق ہے۔ سو دیوان غلام محی الدین جیسا کارکن آزاد کشمیر اسمبلی الیکشن لڑنے کے لئے میدان میں آگیا اور مہاجرین مقیم پاکستان کی وادی لاہور کی نشست سے تین دفعہ مسلسل الیکشن جیت کر ہیٹ ٹرک کرنے کا اعزاز حاصل کر گیا۔ موجودہ آزاد کشمیر اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے کو ہے لیکن اس کی نشست کا الیکشن تا حال اس لئے نہیں ہو سکا کہ اس نشست سے دیوان غلام محی الدین کی جیت یقینی محسوس ہوتی ہے۔ دیوان صاحب کی بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے ساتھ دوستی اپنی جگہ تھی لیکن وہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر بیرسٹر کے ساتھ تحریک انصاف میں جانے پر آمادہ نہیں ہوئے تھے۔ اب کیا ہوا؟ دل کا بائی پاس آپریشن کروانے کے بعد دیوان نے پیپلز پارٹی کو بھی پائی پاس کر دیا ہے اور تحریک انصاف میں شامل ہوگئے ہیں۔ تحریک انصاف خوب جماعت ہے۔ اس میں پہلے سے موجود لوگ آپس میں دست و گریباں ہیں اور بقول عمران خان انہوںنے مسلم لیگ ن کی طرف گنیں کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر تان رکھی ہیں لیکن اس میں نئے شامل ہونے والوں کی رفتار بھی خوش کن ہے۔ دراصل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے عاجز افراد تحریک انصاف ہی کو متبادل سیاسی فورس گردانتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے جیالے میاں نواز شریف کی سیاست کے ناقد رہے ہیں سو وہ مسلم لیگ ن کی بجائے تحریک انصاف میں جانا اپنے لئے زیادہ آسان سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف حلقوں میں متحارب سیاستدانوں میں سے مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کے حامی تحریک انصاف میں شامل ہو کر ان کا ووٹ بنک اور اپنے ذاتی ووٹ بنک سے جیت کی توقع رکھتے ہیں۔ ضلع قصور سے نکئی خاندان کے سردار طالب نکئی کی تحریک انصاف میں شمولیت بھی اسی سوچ کی مظہر ہے۔
جہاں تک تحریک انصاف کی لاہور میں سیاست کا تعلق ہے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی ہوں یا جہانگیر ترین، چوہدری محمد سرور ہو یا میاں محمود الرشید عبدالعلیم خان ہو یا اعجاز چوہدری، ولید اقبال ہوں یا بیرسٹر میاں حماد اظہر سب کا نشانہ جہاں مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ن کی قیادت ہے وہاں وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا موقع بھی ضائع نہیں جانے دیتے۔ تحریک انصاف نے آنے والے بلدیاتی انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلم لیگ ن کی مخالف تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لئے سوموار 10 اگست کو لاہور میں آل پارٹیز کانفرنس بلائی تھی لیکن اس کانفرنس میں تحریک انصاف کے علاوہ پاکستان عوامی تحریک، مسلم لیگ ق اور جماعت اسلامی نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا اہتمام تحریک انصاف پنجاب نے کیا تھا۔ اور صدارت بھی ان کے پنجاب آرگنائزر چوہدری محمد سرور نے کی۔ ان کے ہمراہ ان کہ ڈپٹی آرگنائزر عمر سرفراز چیمہ، پنجاب اسمبلی میں قائد ضرب اختلاف میاں محمود الرشید، پنجاب میڈیا ٹاسک فورس کے سربراہ جمشید اقبال چیمہ تھے لیکن دیگر شریک سیاسی جماعتوں کی صوبائی تنظیموں کے عہدیداران کی بجائے جماعت اسلامی اور پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات امیر العظیم اور نور اللہ صدیقی آئے البتہ ان کے ہمراہ پنجاب کا ایک ایک عہدیدار تھا۔ مسلم لیگ ق کی جانب سے بھی صوبائی صدر چوہدری پرویز الٰہی اور جنرل سیکرٹری چوہدری ظہیر الدین کی بجائے ایک صوبائی عہدیدار میاں محمد منیر اور شعبہ خواتین لاہور کی صدر آمنہ الفت شریک ہوئیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ اے پی سی کا مقصد صرف اور صرف میڈیا پر کورئج حاصل کرتا تھا تنظیمی سطح پر کوئی سنجیدگی موجود نہیں تھی۔
جہاں تک تنظیمی سطح پر سنجیدگی کا تعلق ہے تو اس کا مسلم لیگ ن کے حلقوں میں بھی فقدان دکھائی دیتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کے لئے مسلم لیگ ن کے مسور محمد نواز شریف کی صدارت پر ہر قومی اسمبلی کے حلقہ کی سطح پر پارلیمانی بورڈ تشکیل دئے گئے تھے۔ ضلعی صدور اور جنرل سیکرٹریوں کو آن بورڈ رکھنے کے لئے اپنی پارلیمانی بورڈوں کی سفارشات صوبائی دفتر پنجاب میں کردار ادا کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ ن نے باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کیا تھا لیکن مسلم لیگ ن کی تنظیموں اور پارلیمانی بورڈوں کی عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ لگ بھگ ایک ماہ گزر جانے کے باوجود موزوں امیدواورں کے بارے میں سفارشات بھجوانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اگرچہ صوبائی جنرل سیکرٹری راجہ اشفاق سرور نے اس صورت حال کا نوٹس لیا ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے لوگ بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کے بارے میں مشکوک ہیں کہ اس برس ہو بھی پائیں گے کہ نہیں۔ الیکشن کمشن کی سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن کے بلدیاتی انتخابات کو 20 ستمبر سے آگے لے جانے کی اجازت دی جائے نے غیر مہم صورت حال پیدا کردی ہے۔ ہماری رائے میں الیکشن کمشن اپنا کام بروقت کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ الیکشن کمشن میں شامل لوگ صرف الیکشن کروانے کے لئے ہی رکھے گئے ہیں لیکن وہ سست روی کا شکار نظر آتے ہیں جونہی الیکشن کروانے کا مرحلہ آتا ہے ان کے ہاتھ پاﺅں پھول جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ کو چاہئے انتخابی اصلاحات کو ساتھ ساتھ الیکشن کمشن کا ڈھانچہ تبدیل کرنے کی طرف بھی توجہ دیں۔

ای پیپر دی نیشن