ناگوار بھارت ،ناگزیر پاکستان

1947ءمیں بھارت سے علیحدہ اور آزاد صرف پاکستان نہیں ہوا تھا۔ تھوڑا غور کریں بھوٹان، مالدیپ اور سری لنکا بھی اسی تحریک کے نتیجہ میں علیحدہ اور آزاد ہوئے تھے۔پاکستان 70 (69) سال کا ہونے کو آ گیا ہے مگر عجیب بات ہے کہ ابھی تک کچھ متعصب لوگ یہ بحث کرتے ہیں کہ متحدہ ہندوستان مسلمانوں کے فائدے میں تھا، اسی نقطہ پر غور کریں تو موجودہ بھارت کے حالات پاکستان کے ناگزیر ترین ہونے کی تائید اور تصدیق کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ قیام پاکستان سے پہلے کا بھارت اس وقت کا آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک یا علاقہ تھا۔ جس میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، بدھ مت اور دیگر مذاہب کے لوگ بستے تھے۔ مذہب کی تقسیم کے علاوہ علاقائی زبانوں کے اعتبار سے بھی انڈیا دنیا کا سب سے بڑا علاقہ تھا ۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ نسلی اعتبار سے بھی ہندوستان متشدد طور پر منقسم تھا اس میں تامل،گورکھا اور خاص طور پر چھوٹی ذات کے ہندو جن کو شودر یا دلت کہا جاتا ہے شامل ہیں۔ انتہائی بھیانک تاریخی حقیقت ہے کہ بھارت کا آئین بنانے والی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ایمبیدکر Dr. Embedker کا تعلق شودر ذات سے تھا مگر بھارت میں آزادی کے بعد بھی شودروں اور دیگر مذاہب سے امتیازی سلوک کی وجہ سے وہ اتنے بیزار اور بددل ہوئے کہ انہوں نے اپنا مذہب ہندومت چھوڑ کر بدھ مت قبول کر لیااور اپنے مرنے تک اسی پر قائم رہے۔
یہاں پر یہ بات انتہائی اہم ہے کہ کانگریس کے نمایاں حکمران نہرو خاندان کا تعلق ہندو مذہب کے اشرافیہ برہمن فرقے سے تھا۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو 1947ءسے 1964ءیعنی 17 سال وزیراعظم رہے جو ایک جمہوری تضاد ہے۔ اس کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ جمہوریت کی روح یہ ہے کہ کوئی شخصیت ناگزیر نہ ہو بلکہ ادارے مضبوط اور ناگزیر ہوں مزید حیران کن بات یہ ہے کہ جواہر لال نہرو وزارت عظمیٰ سے دستبردار نہیں ہوئے تھے بلکہ انتقال کر جانے کی وجہ سے اقتدار سے علیحدہ ہوئے۔وگرنہ ہوسکتا ہے کہ یہ سلسلہ مزید بھی کئی سال تک جاری رہتا۔ نہرو کے بعد 1966ءسے ان کی بیٹی اندرا گاندھی اور پھر اندرا گاندھی کا بیٹا راجیو گاندھی بھی برسر اقتدار رہے۔ اگر صرف جواہرلال نہرو کے مسلسل 17 سال کے اقتدار کو لیں تو اتنا لمبا Regime پاکستان میں کسی ڈکٹیٹر کا بھی نہیں ، اگر اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے اقتدار کا مجموعہ کیا جائے تو37 سال بنتے ہیں جو کہ پاکستان کے مارشل لاءکے ادوار سے زیادہ ہیں۔واضح رہے کہ اندرا اور راجیو بھی قتل ہوکر ہی اقتدار سے گئے تھے۔ یوں بھارت سیکولر نہیں بلکہ برہمن ہندو ریاست کے طور پر زیادہ نمایاں ہے اور یہی اس کا اصل چہرہ ہے۔ بھارت کا شمار آج بھی ایک Developing (ترقی پذیر)ملک کے طور پر ہوتا ہےتاہم معاشیات کے دیگر پیمانوں کے مطابق بھارت کا شمار غریب ملکوں میں ہی ہوتا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ایسے افراد جن کا قد غذا کی کمی کی وجہ سے نہ بڑھ سکے اور بونے رہ جائیںان کی سب سے بڑی تعداد بھارت میں ہے۔ 50 فیصد لوگوں کو ٹائلٹ کی سہولت میسر نہیں۔ 30 کروڑ لوگ بجلی کی سہولت سے یکسر محروم ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کی سب سے زیادہ علیحدگی کی تحریکیں بھارت میں چل رہی ہیں۔ ان تمام حالات کے باوجود بھارت کے تعلقات ناصرف پاکستان بلکہ دیگر جنوبی ایشیا کے ممالک جو تمام بھارت کے پڑوسی بھی ہیں کشیدہ ہیں۔ بھارت کے نا صرف پاکستان بلکہ دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ ہیں، بھارت ان ممالک کی آزادی اور استحکام پر بری نظر رکھے ہوئے ہے۔ آپ اس امر کا آج کے بعد خود مشاہدہ کر سکتے ہیں©۔ مثال کے طور پر: سری لنکا پاکستان سے بہت دور مگر بھارت کا سمندری پڑوسی ملک ہے مگر سری لنکا کی آرمی اور سول قیادت پاکستان کا گا ہے بگا ہے دورہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ سری لنکا پاکستان کو بھارت کے مقابل واحد طاقت کے طور پر دیکھتا ہے۔ اسی طرح نیپال جو ہندو اکثریتی ملک ہے کی تجارت بھارت نے اپنے ملک کے ذریعے بند کر دی تو نیپال نے پاکستان کی بندرگاہ کو براستہ چین استعمال کرنے پر غور کیا اس نعم البدل کو دیکھتے ہوئے بھارت نے نیپال کی تجارت کھول دی۔ اسی قسم کی ایک پابندی 1989ءمیں بھی بھارت نے عائد کی تھی تونیپال کو بھی پاکستان کی وجہ سے چھٹکارا ملاتھا۔ مالدیپ میں 80ءکی دہائی کے آخر میں بھارتی ایما پر حکومت الٹنے کی کوشش کی گئی تھی۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی پارٹی کے علاوہ کوئی بھی حکومت ہو تو بھارتی دراندازی شروع ہوجاتی ہے۔پاکستان کے ساتھ روز اول سے بھارت کاکھلم کھلا جارحیت، دراندازی، دہشتگردی میں معاونت کا خبط اس حد تک ہے کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار بنانے پر مجبور ہوا۔ ذرا سوچیئے اگر بھارت کے پاکستان سے تعلقات کشیدہ ترین اور طویل ترین نہ ہوتے تو پاکستان کبھی ایٹمی طاقت نہ بنتا۔ موجودہ دہشت گردی کی لہروں، کرپشن زدہ جمہوریت کے باوجود پاکستان کا خطے میں اہم کردار CPEC کی تعمیر یہ ثابت کرتی ہے کہ پاکستان آج بھی جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کیلئے بھارت ناگوار اور پاکستان ناگزیر ترین ہے۔

ای پیپر دی نیشن