یوم جشنِ آز ادی اورسیاسی صورتحال

کسی بھی آزاد ریاست کے قیام کا اصل مقصد بھوک، ننگ، بیروزگاری،جہالت، غربت، بیماری اور استحصال کا خاتمہ ہوتا ہے۔ ایک آزاد ریاست میں بسنے والے ہر شہری کو سماجی، معاشی،سیاسی، ثقافتی اورمذہبی آزادی حاصل ہوتی ہے یا ہونی چاہئے۔اگر کسی ریاست میں بیروزگاری،جہالت اور افلاس کے عفریت نوجوانوںکو لقمہ تر سمجھ کر ہڑپ کر رہے ہوں، جہاں مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والے سکولوں، عبادت گاہوں اور ہسپتالوں میں انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح تہہِ تیغ کر دیتے ہوں، جہاں کرپشن کا گراف کوہِ ہمالیہ کی چوٹی کو بھی شرمائے، جہاں خاتون محض اپنی صنف کی وجہ سے کمتر درجے کی مخلوق سمجھی جاتی ہو ، جہاں قانون اورانصاف کے معیار الگ الگ ہوں تو اس ریاست کو حقیقی معنوں میں آزاد کس طرح کہا جاسکتا ہے؟
وطنِ عزیز، پاکستان، خیر سے اپنی عمر کی 70 بہاریں دیکھ چکا ہے۔ اس ملکِ خداد کے بانیانِ نے ایک جمہوری جدوجہد کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ ،آزاد وخودمختار مملکت کے خواب کو تعبیر عطا کی تھی۔ اب تک یہ ملک اپنی نصف کے قریب عمرِ آمریت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اور باقی ماندہ جمہوریت کی ملجگی روشنی میں گزار چکا ہے۔ اس تمام عرصے میں پاکستان میں بسنے والے اپنی پنجابی، سندھی، پختون اور بلوچی شناخت کو تو بخوبی سینوں سے لگائے بیٹھے ہیں لیکن پاکستانی بننا انہیں نصیب نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس قوم پر آمریت مسلّط ہو تو یہ جمہوریت کے قصیدے پڑھتی سنائی دیتی ہے اور اگر لولی لنگڑی جمہوریت میّسر آجائے تو اسے آمریت میں راہِ نجات نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس ملک میں سیاسی جماعتیں درجنوں کے حساب سے ہیں لیکن ان میں سے ایک بھی حقیقی معنوں میں ’’قومی جماعت‘‘ کی تعریف پر پوری نہیں اُترتی کیونکہ ’’من حیث القوم‘‘ ہم اپنے مقامی، نسلی اور لسانی تعصبات کو مٹانے کی بجائے انہیں دن رات پالنے پوسنے میں مصروف رہتے ہیں۔
سیاسی جماعتیں صوبائیت کی سیڑھی لگا کر ایوانِ اقتدار میں نقب لگاتی ہیں تو آمریت نام نہاد وسیع تر ’’قومی مفاد‘‘ کے گھوڑے کو ایڑ لگا کر سب کو روندتی ہوئی مسندِ اقتدار تک پہنچ جاتی ہے۔ اس قوم کی رائے نہ کسی سیاسی جماعت نے پوچھی اور نہ ہی کسی آمر نے اسے درِخورِ اعتناء جانا۔ پاکستانیوں کی اس اجتماعی بے توقیری کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک آزاد و خود مختار ریاست میں 70 برس گزارنے کے باوجود انہیں ایک قوم بننا نصیب نہیں ہوا اور اس سانحہ سے کہیں بڑا المیہ بقول شاعرِ مشرق، علامہ محمد اقبال یہ ہے:
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
20 کروڑ پاکستانیوں میں سے آج شاید کسی کو بھی اپنے لٹنے کا احساس نہیں اور یہی سب سے بڑا المیہ ہے۔ آج پاکستان جس سیاسی بے یقینی بلکہ افراتفری اور انارکی سے گزر رہا ہے اس کو منزلِ جمہوریت تک پہنچنے کی راہ میں آنے والی ناگزیر رکاوٹ قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حصّے میں رکاوٹیں تو ضرور آئیں لیکن ان کے پار منزلِ جمہوریت کی ایک جھلک بھی دکھائی نہیں دی۔
آج ہم،ہر سال کی طرح جشنِ آزادی منانے کی تیاریاں ضرورکر رہے ہیں اور لوگ آزادی کا دن منانے کی خوشی میں اپنے گھروں اورگلیوں بازاروں کو سجانے میں مصروف ہیں،جگہ جگہ سٹال سجائے گئے ہیں کیونکہ 14 اگست کے دن ہماری گلیاں، بازار اورگھر سبزہلالی پرچم کے رنگ میں رنگے جائیں گے۔ لیکن سیاسی جماعتیںایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں ،انہیں ایک دوسرے پر الزام عائد کرنے سے ہی فرصت نہیں۔ لیکن کیا کسی نے سوچا کہ عالمی سطح پر خدانخواستہ پاکستان کی بربادیوں کے جو مشورے جاری ہیں ان کا سدِ باب کیسے اور کب کیا جائے گا؟
ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کو پاکستان کی موجودہ صورتحال اور عالمی بساط پر چلی جانے والی خوفناک چالوں، جن کا مقصد پاکستان کو شہہ مات دینا ہے، کا احساس ہے؟کیا ہماری سیاسی قیادت نے پاکستانی قوم کو متحد کرنے کی ابھی تک کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے؟ بد قسمتی سے اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
قیامِ پاکستان مسلمانانِ برِ صغیر کے بے مثال اتحاد کا عملی نتیجہ تھا لیکن آزادی حاصل کرنے کے بعد یہ اتحاد قصّہ پارینہ بن چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے خلاف عالمی سازشوں کے تانے بانے ماضی کی نسبت کہیں زیادہ تیزی سے بنے جارہے ہیں۔امریکہ افغانستان میں اپنی عسکری ناکامی کی وجوہات خود اپنی ناقص پالیسی اورطرزِ عمل میں ڈھونڈنے کی بجائے افغانستان کے آس پڑوس میں ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس میں سب سے قابلِ ذکر نام پاکستان کا ہے۔ہمارا ازلی دشمن بھارت اس کوشش میں امریکہ کا سہولت کار بنا ہوا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک میں زمینی صورتحال جس تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے خدشہ ہے کہ یہ کسی بھی وقت قابو سے باہر ہوسکتی ہے اور اس کے منفی اثرات پاکستان پرمرتب ہونا ناگزیر ہے۔
ان حالات میں ہماری سیاسی و عسکری قیادت کو جوش و جذبے سے جشنِ آزادی منانے کے ساتھ ساتھ اپنی آنکھیں اور کان بھی کھلے رکھنے کی ضرورت ہے۔جشنِ آزادی کی تیاریوں کو قوم کو ملک کی اصل صورتحال اور عالمی سطح پر درپیش چیلنجز سے غافل رکھنے کیلئے استعمال کرنے کی بجائے اسے اعتماد میں لینے کیلئے استعمال کیا جائے۔ پاکستانی قوم کو اس مرحلے پر متحد کیا جا سکتا ہے اور لامحالہ کیا جانا چاہئے کہ یہ ملک و قوم کی بقا کیلئے ناگزیر ہے۔ ملک قائم ہے تو جشنِ آزادی بھی اپنے رنگ دکھاتا رہے گا اور اس کیلئے بانیانِِ پاکستان کے فکر و عمل کو مشعلِ راہ بنانا ضروری ہے۔
تنظیم،اتحاد،ایمان کو جزوِِ ایمان بنائے بغیر ہم ایک بے ترتیب اور راہ گم کردہ ہجوم تو بنے رہیںگے، ایک مضبوط اورمستحکم قوم کبھی نہیں بن پائیں گے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو اپنے مفادات سے بالا تر ہوکر صرف اورصرف ملک و قوم کی بہتری اور تعمیر وترقی کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرنا ہونگی اور یہ کام ہر سیاسی جماعت کے کارکنان کا ہے کہ وہ اپنی لیڈرشپ کو قائداعظمؒ اور اقبالؒ کے تصورِ پاکستان کے مطابق خود کو ڈھالنے پر مجبور کریں۔ ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو گروہ بندی کی بجائے قوم کی شیرازہ بندی کو اپنا منشور بنانا ہوگا اور یہی آزادی کا اصل تقاضا اور اس کی حقیقی روح ہے۔ پاکستان ایک سربلند ملک بننے کی پوری صلاحیّت رکھتا ہے اور یہ ہمیں طے کرنا ہے کہ ہم ایک آزاد، خود مختار اور باعزّت ملک کے شہری بننا چاہتے ہیں یا مزارِ آزادی کے مجاور۔
جشنِِ آزادی وطنِ عزیزکے ہر فردکیلئے بھرپور طریقے سے منانا ازحدضروری ہے لیکن ہمیں یہ بھی عزم کرنا ہوگاکہ ہم نے زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے وطنِ عزیز کے خلاف ہر سازش کے سامنے ڈٹ جانا ہے۔ یہ سازش خواہ کرپشن کی صورت میں ہو یا وطنِ عزیز کے خلاف سازش کی صورت میں ۔ ہمیں یہ بھی عزم کرنا ہوگاکہ اپنے اندر قوتِ برداشت میں اضافہ کریں کیونکہ اس وقت اس چیپٹر کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن