”جی او بی سے یورالوجی وارڈ تک“

Aug 13, 2017

مالک کائنات سے معافی اور صحت کا سوال کرتے رہا کرو کیونکہ ایمان کی نعمت نصیب ہو جانے کے بعد تندرستی سے بہتر کوئی نعمت نہیں اسی لیے تو کہتے ہیں کہ بیماری سے کسی دشمن کا واسطہ بھی نہ پڑے بیماری میں بڑے بڑے خزانوں کے مالک بھی ایک وقت پر آ کر ہولے پڑ جاتے ہیں کیونکہ پرائیویٹ ڈاکٹروں کی مشورہ فیس آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ ہر ہفتے چیک کروانے کے لیے ہر بار پھر سے فیس دینا پڑتی ہے تمام میڈیکل ٹیسٹ لیبارٹریز والے بھی خوب لوٹ مار مچائے ہوئے ہیں۔ غریب آدمی ان بیماریوں سے لڑتا لڑتا یا تو مر جاتا ہے یا پھر اس مرض کو لے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بستر کا ہو کر رہ جاتا ہے یا پھر کسی ہسپتال کے کونے میں بے یارو مددگار پڑا پڑا اپنی زندگی کے دن گنتا ہے۔ تندرستی کی حسرت دل میں لیے ہوئے ایک دن اس دنیا کو خیرباد کہہ جاتا ہے۔
راقم گزشتہ کئی سالوں سے گردے میں پتھری کے عارضہ میں مبتلا ہے جس کو نکالنے کے لیے بے شمار عطائی حکیموں اور دم درود کرنے والوں کے آستانوں پر اس پتھری کے نکل جانے کی غرض سے حاضری بھرتا رہا ہے۔ مگر سب کچھ بے سود بلکہ اس سے الٹا نقصان ہوا کہ کبھی پیشاب کا کم آنا اکثر درد رہنا جس کی وجہ سے گردے کی ورق پوزیشن میں بھی کمی ہونے لگی جس کے باعث ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کا حل صرف آپریشن ہے سو وہ آپ جتنی جلدی ہو سکے کروا لیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا گردہ ناکارہ ہو جائے۔ پھر جب اس دوران درد کی شدت میں اضافہ ہونے لگا تو میں نے فیصلہ کیا کہ اس کا آپریشن کروا لیا جائے۔ لہٰذا جس کے لیے میں نے اپنے ایک عزیز ڈاکٹر غلام غوث سے رابطہ کیا جو کہ یورالوجی کے ماہر ڈاکٹر ہیں جو چین سے ڈاکٹری کی ڈگری لے کر آئے ہیں۔ اور آج کل سروسز ہسپتال میں یورالوجی کے شعبہ میں اپنے فرائض انتہائی لگن اور احسن طریقہ سے انجام دے رہے ہیں۔ جنہوں نے پہلے تو میرے گردے کے متعلقہ تمام ٹیسٹ وغیرہ کروائے اور مجھے فوری طور پر داخل ہونے کا مشورہ دیا سو اس طرح مجھے ڈیڑھ ماہ کا ایک عرصہ ہسپتال میں گزارنے کا موقع ملا۔ اس دوران جی او بی سے یورالوجی وارڈ تک کا ایک معلوماتی سفر قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔ یہ بات بڑی اچھی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے تمام سرکاری ہسپتالوں میں پرچی فیس کا خاتمہ کر دیا ہے مگر یہ بات بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہی ہے کہ ایک روپے کی پرچی فیس کی معافی کے ساتھ پارکنگ سٹینڈ کی فیس 10/- روپے سے 20/- روپے تک لی جا رہی ہے۔ اس پرچی فیس کو معاف کرنے کا کیا فائدہ جبکہ سٹینڈ کی مد میں بچارے غریبوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ یہ لوگ تو پہلے ہی ہسپتالوں میں لٹ رہے ہیں اس پارکنگ سٹینڈ کے ذریعے لاہور کے تمام ہسپتالوں سے ہر روز مریضوں اور انکے لواحقین سے لاکھوں روپے اکٹھے کئے جاتے ہیں جو مریضوں اور ان کے لواحقین کے ساتھ بہت بڑا مذاق ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو اس مذاق کی طرف فوری طور پر خصوصی نظرثانی کرنی چاہیے اور ہسپتالوں کے اندر پارکنگ فیس کو ختم کرنے کے احکامات دینے چاہیں لیکن پارکنگ ٹوکن کو ختم نہیں کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہسپتالوں میں ہر روز گاڑیاں چوری ہونے کی وارداتیں ہونے لگیں۔ یہ بیچارے عوام ہر طرح کا حکومت کو ٹیکس فراہم کرتے ہیں مگر عوام کو ہر دور میں تمام حکومتوں سے یہی شکایت رہی ہے کہ انہیں ٹیکسز کے عوض کچھ نہیں دیا جاتا جو جائز سہولیات اور حق ہے وہ بھی میسر نہیں ہوتا۔ کیا عجیب دستور ہے اس ملک کا جہاں پر جو ٹیکس دیتا ہے اسے کچھ نہیں ملتا اور جو ٹیکس نہیں دیتا اسے سب کچھ پروٹول کے ساتھ فراہم کیا جاتا ہے۔
مریض کے داخلہ اور آپریشن کے بعد میڈیسن کی جو ایل پی جاری کی جاتی ہے۔ وہ کسی مریض کی دو دن اور کسی کی پانچ دن کی ہوتی ہے جسکی ایل پی ختم ہونے کو ہوتی ہے اسے کہا جاتا ہے کہ اپنی میڈیسن کی ایل بی مزید لے کر آ¶ یا پھر ایسے مریضوں کو چھٹی دے دی جاتی ہے۔ یا پھر مریضوں کو اپنے طور پر مزید ادویات بازار سے خریدنا پڑتی ہیں۔ ایک باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت کی طرف تمام ہسپتالوں میں وافر مقدار میں میڈیسن مہیا کی جاتی ہیں۔ یہ سب حرام زدگیاں ہسپتال میں موجود میڈیسن فراہم کرنے کا ذمہ دار عملہ صرف اور صرف اپنی جیبیں بھرنے اور حرام کھانے کی خاطر کرتا ہے۔اس کے علاوہ یاد رہے کہ جو مریض اپنے ذاتی تعلقات کی بنا پر وزیراعلیٰ پنجاب کے دفتر سے لیٹر جاری کرواتے ہیں فری میڈیسن اور داخلہ کے لیے یہ عملہ اس کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرتے ہیں اسے بھی عام آدمی کی طرح میڈیسن دیتے ہیں۔ اور یہی حال ”جی او بی“ کا ہے سروسز ہسپتال میں گورنمنٹ آفیسر بلاک قائم ہے جس میں تقریباً 15 عدد کمرے موجود ہیں جو خاص مریضوں کو پرائیویٹ طور پر کمرے کے چارجز وصول کر کے فراہم کئے جاتے ہیں جبکہ سرکاری ملازمین، سیاسی رہنما¶ں اور دیگر اہم سرکاری شخصیات کو فری فراہم کئے جاتے ہیں۔
راقم کو بھی دو بار آپرےشن کے سلسلہ مےں اس (جی او بی) کے کمرہ مےں ٹھہرنے کا موقع ملا وہاں پر جا کر اندازہ ہوا کہ اس جی او بی کا چند نرسوں اور درجہ چہارم کے عملہ کے علاوہ کوئی والی وارث نہ ہے جب او بی کی انچارج مےڈم شہناز اےک بااخلاق اور محنتی خاتون ہے۔ جی او بی مےں اےک نرس ماہم کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے ےہ خاتون وقت کی پابند اور بھرپور طرےقہ سے اپنی ڈےوٹی بغےر کسی غفلت کے انجام دےتی ہےں۔ سروسز ہسپتال کے اےم اےس ڈاکٹر امےر محمد صاحب جو اےک اےماندار اور اچھے آدمی ہےں مگر کمروںکی حالت ےہ ہے کہ تمام کمروں کے رےگولےٹر خراب پڑے ہےں۔صفائی کا ناقص انتظام شکائت کے باوجود شکائت کا کوئی ازالہ نہےں ہوتا۔ کمروں مےں مچھروں کی بھرمار ہے۔درجہ چہارم کے ملازمےن صرف اور صرف مرےضوں سے دےہاڑی لگاتے ہےں کوئی کام جو ان کے متعلقہ لے لیا جائے تو فوری طور پر چائے پےنے کی صورت مےں مال پانی بناتے ہےں۔ اس طرح ےہ ملازمےن ہر روز ہزاروں روپے کی دےہاڑی لگاتے ہےں۔اب چلتے ہےں پورا لوجی وارڈ مےں وہاں کے انچارج پروفےسر ڈاکٹر عبدالمنان صاحب جو انتہائی نفےس اور شفےق القلب انسان ہےں۔ جو اپنی ذمہ داری کو ذمہ داری سمجھ کر خوب فرائضہ انجام دے رہے ہےں۔ انہےں اسسٹنٹ پروفےسر فاروق صاحب اور اےم اور ارشد صاحب پر مشتمل ےنگ ڈاکٹروں کی اےک بہترےن ٹےم بھی مےسر ہے جو اپنے فرائض کو انتہائی لگن سے انجام دے رہی ہے۔ ےورا لوجی وارڈ مےں داخل ہونے کے بعد اس بات کا بالکل احساس نہےں ہوتا کہ آپ اپنے گھر پر موجود ہےں ےا ہسپتال مےں۔

مزیدخبریں