14اگست ہماری آزادی کا دن ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح بانی پاکستان کی کاوشوں اور ہزاروں مسلمانوں کی قربانی سے ہمیں اپنا وطن پاکستان نصیب ہوا، جس کی آزاد فضاﺅں میں ہم خود کو پاکستانی کہہ کر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ آزادی کا اصل مفہوم تلاش کرنا ہے تو ان قوموں سے پوچھیئے جو برسوںجدو جہد آزادی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں، لیکن حصول آزادی کا ان کا خواب اب تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ ایک ویب سائٹ کے مطابق دنیا میں اس وقت 353تحریکیں آزادی کے حصول میں مصروف عمل ہیں۔ ان میں فلسطین اور کشمیر سرِفہرست ہیں لیکن پاکستان کی مناسبت سے بلوچستان، سندھ بلاوارستان اور جنا ح پور کا تذکرہ بھی ہے۔ میرے نانا مرحوم پروفیسر مسلم عظیم آبادی کی 1938ءمیں کہی گئی نظم ”آزادی“ نے مجھے اس تحریک کے دوسرے پہلوﺅں سے آگاہ کیا۔ پروفیسر مسلم خاندان صادق پور کے چشم و چراغ تھے اور مولانا عنایت علی کے پڑ پوتے تھے جوبرطانوی سامراج کے خلاف جہاد کا علم بلند کرتے ہوئے سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی شہادت کے بعد ان کے مشن کو آگے لے کر بڑھے۔ گو قبائلیوں کی غداری کے باعث وہ جنگ امبیلہ میں بر طانوی فوج کو شکست فاش دینے میں ناکام رہے حالانکہ پورا برطانوی گریژن ان کے نرغے میں تھا۔ کالا پانی اورپھانسی ان کے لواحقین کا مقدر بنا، لیکن 1857ءکی جنگ آزادی اور پھر 1947میں آزادی پاکستان اس جدو جہد کا ثمر ہیں۔ پروفیسر مسلم اس ماحول سے اثر لیتے ہوئے پیشین گوئی کرتے ہوئے اپنی معرکةالا ٓراءنظم” آزادی “میں1938ءمیں فرماتے ہیں۔
آزادی کی کنیا کیسی سندر لا جونتی ہے
پری بن جاتی ہے جب نیائے کا جوڑا پہنتی ہے
یہ دکھ بپتا کی پتری پھردلہن شکتی کی بنتی ہے
غلامی سے جنم پاتی ، غلام خود بھی جنتی ہے
غلام آزاد ہو کر چھینتے ہیں سب کی آزادی
بے انصاف اپنے گو ں کی بات اور مطلب کی آزادی
غور فرمائیے کہ بھارت میں ہندوﺅں نے آزادی پاتے ہی اقلیتوں کی آزادی سلب کر لی۔ کشمیر ، حیدر آباد ، جونا گڑھ ، سکّم ،گوا اور منا ودر پر قبضہ کر لیا ۔ بھارت میں کشمیری اپنی آزادی کے لئے آج تک ترس رہے ہیں اور لاکھوں جانوں کی قربانی کے باوجودبھارتی فوج نے ان کو ظلم و ستم کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ بھارت میں اقلیتوں پر جو ظلم و جبر کی وارداتیں ہیں، وہ اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ کم از کم 21حریت پسند تحریکیں حصول آزادی کے لئے مصروف عمل ہیں۔ جس میںکشمیر کے علاوہ آندھرا پردیش، ارونا چل پردیش، آسام ، ناگالینڈ‘ کربی‘ کرناٹک ‘ منی پور‘ میزورام‘ تامل ناڈو ‘ خالصتان اور نکسل باڑی سرفہرست ہیں۔ بھارت ان تحریکوں کو بغاوت کا نام دے کر شدت سے کچلنے کی گوشش میں سر گرم ہے۔
پروفیسر مسلم کی پیشین گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی ‘ لیکن بھارت اس سے دو ہاتھ آگے بڑھ گیا۔ 1971ءمیں مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسند عناصر کی پشت پناہی کرکے اس نے پاکستان کو دو لخت کر دیا جس میںہمارے اپنے کچھ رہنماﺅں کی کمزوریاں بھی اس سانحہ عظیم کا باعث بنیں۔ اب بھارت پاکستان میں شورش کی آگ بھڑکا کر اس کے مزید ٹکڑے کرنے کی سازش میں ملوث ہے۔ بلوچ رہنماﺅں کو گمراہ کرنے کے علاوہ انہیں اسلحہ ‘ ہتھیار‘ رقوم کی فراہمی کے علاوہ دہشت گردی کی تربیت دینا بھی بھارتی ایجنڈہ میں شامل ہیں۔ گو بھارت کی سرحدیں بلوچستان سے نہیں ملتیں لیکن وہ افغانستان میں گٹھ جوڑ کے بعد اپنے قونصل خانوںاور تجارتی مراکز قائم کر کے ان کی آڑ میں اپنا گھناﺅنا کھیل رچا رہا ہے۔ آزادی کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ دوسروں کی آزادی کا احترام کریں’ لیکن یہ سبق نہ بھارت نے سیکھا نہ ہمارے کچھ ہم وطنوں نے۔ وہ اپنے طرز زندگی کو دوسروں پر مسلط کرنے پر تلے ہیں‘ آزاد خیالی اور اعتدال پسندی کی آڑ میں حد سے ز یادہ بے راہ روی کی تقلید کرتے ہیں یا دوسری جانب مذہب کے نام پر انتہائی کٹر عقائد اور تنگ نظری مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اسلام بذات خود میانہ روی اختیار کرنے کا سبق دیتا ہے ۔ کبھی ہم دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو توہین رسالت یا کلام پاک کی بے حرمتی کے نام پر تختہ مشق بناتے ہیں تو کبھی اسلام او ر جہاد کے نام پر بے گناہ انسانیت کو اپنا ہدف گردانتے ہیں۔بے شک ان سازشوں کے پیچھے بیرونی عناصر ملوث ہوں لیکن ہم خود اس قدر سادہ لوح کیوں ہیں کہ دوسروں کے ہاتھ میں کھلونا بن کرشدت پسندی پر اترآئیں؟
آزادی دراصل ایک آزمائش ‘ ایک ذمہ داری‘ اور فرض منصبی بھی ہے۔ صر ف ہمارے رہنماﺅںکے لئے نہیں بلکہ ہم سب کے لئے کہ ہمیں اپنا فرض کس طرح ادا کرنا ہے کہ دوسروں کو ہماری ’‘آزادی “ سے تکلیف نہ ہو۔ اسی طرح اپنی آزادی کا دفاع کرنا بھی ہمار ا فرض ہے کہ لٹیرے ‘ ڈاکو‘ راہزن ہماری آزادی سلب نہ کر لیں۔ اتنی محنت اور قربانی سے حاصل کی گئی آزادی اگر ہم نے اپنی غفلت سے کھو دی تو کیاکوئی اور قائداعظم دوبارہ ہمیں آزادی دلانے کو پیدا ہوگا؟
”آزادی ۔۔۔۔۔ایک آزمائش“
Aug 13, 2017