غزنی (اے ایف پی+ سنہوا) کابل کی جانب سے افغانستان کے مشرقی حصے میں واقع شہر غزنی پر کنٹرول حاصل کرنے کے دعوے کے بعد بھی شہر میں طالبان فورسز کے درمیان لڑائی تیسرے روز بھی جاری ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق طالبان جنگجوؤں نے سرکاری دفاتر پر حملے کئے اور چند سچیک پوائنٹس پر بھی قبضہ کیا جبکہ تازہ دم دستوں کی تعیناتی کا سلسلہ بھی سست روی کا شکار ہے۔ مقامی افراد کے مطابق غزنی میں رہائش پذیر افراد اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں جبکہ متعدد افراد جنگ سے بچ کر کہیں اور منتقل ہورہے ہیں۔ غزنی صوبائی کونسل کے نائب سربراہ امان اللہ کامرانی کا کہنا تھا کہ صورتحال انتہائی خوفناک ہے۔ غزنی میں صرف پولیس ہیڈ کوارٹرز، گورنر کا دفتر اور چند محکمے افغان فورسز کے کنٹرول میں ہیں جبکہ باقی تمام مقامات پر طالبان کا قبضہ ہے۔ افغانستان کے نشریاتی ادارے طلوع نیوز کو ایک انٹرویو میں غزنی کے رہائشی رحمت اللہ اندر نے بھی اسی طرح کی صورتحال بتائی اور کہا کہ شہر کے زیادہ تر علاقوں میں لڑائی جاری ہے۔ طالبان جنگجوؤں کے مقابلے میں سیکیورٹی فورسز کی تعداد کم ہے اور ہم نے طالبان کی جانب سے کبھی اتنے بڑے پیمانے پر حملے نہیں دیکھے۔ جنگجوؤں کی جانب سے ٹیلی کمیونیکیشن کے ٹاور کو نشانہ بنائے جانے کے بعد سے علاقے میں موبائل سروس بدستور معطل ہے جبکہ غزنی میں چند میڈیا کے دفاتر کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے علاقے میں معلومات کی تصدیق بھی مشکل ہوگئی ہے۔ بعد ازاں افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے کہا کہ 'فوج کی تازہ کمک آنے کے بعد اہلکاروں کے حوصلے بلند ہوئے اور انہوں نے غزنی کے شمال میں طالبان جنگجوؤں کو پیچھے دھکیل دیا، جس کے بعد وہ شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں غزنی کے حالات کے حوالے سے شکوک و شبہات دور کرتے ہوئے کہا کہ 'صورتحال اب مکمل قابو میں ہے اور شہر کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ امریکی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل مارٹِن او ڈونیل نے بھی کہا تھا حقیقت یہی ہے کہ طالبان شہر پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے اور ان کی لڑنے کی طاقت افغان و امریکی افواج سے قدرے کم تھی، جس کے باعث انہیں پیچھے دھکیل دیا گیا۔ ادھر مغربی صوبہ بادغیس میں طالبان کمانڈر ملا طوفان سمیت 50 جنگجوئوں نے مقامی انتظامیہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ کمانڈر ملا طوفان سمیت 50 جنگجوئوں نے ہتھیار ڈال کر اپنی گرفتاری دے دی۔ کمانڈر طوفان کے 300 جنگجوئوں کو کمانڈ کرتا تھا۔ پولیس حکام کے مطابق طالبان کی جانب سے ہتھیار ڈالنا حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ پولیس ترجمان امینی کا کہنا تھا کہ جلد صوبائی دارالحکومت قلعہ ناء پہنچنے پر کمانڈر ملا طوفان اور اس کے ساتھی میڈیا کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروائیں گے۔ تاہم طالبان نے اس کارروائی پر کوئی تذکر ہ نہیں کیا۔
افغانستان : کمانڈر ملا طوفان سمیت50طالبان نے ہتھیار ڈال دیئے، غزنی میں لڑائی جاری
Aug 13, 2018