لاہور(وقائع نگار خصوصی ) لاہور ہائیکورٹ نے ننکانہ میں سکھ لڑکی کو مسلمان کرکے اس سے شادی کرنے والے جوڑے کو ہراساں کرنے کے خلاف دائر درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے نومسلم لڑکی عائشہ کو دارالامان سے اپنی مرضی سے جانے کا حکم دے دیا۔جسٹس شہرام سرور چوہدری نے نو مسلم لڑکی عائشہ اور اس کے شوہر محمدحسن کی درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس شہرام سرور چوہدری نے قرار دیا کہ عدالت لڑکی کے تحفظ کی ذمہ دار ہے، قانون بالغ لڑکی کو مرضی سے جانے کی اجازت دیتا ہے۔ بدھ کو دوران سماعت عدالتی حکم پر عائشہ کو دارالامان سے سخت سکیورٹی میں بکتر بند گاڑی میں پیش کیا گیا۔عدالت کے روبرو درخواست گزار نے بیان دیا کہ نادرا ریکارڈ اور بلوغت ٹیسٹ کے مطابق عائشہ کی عمر 20 سال ہے۔ درخواست گزار عائشہ 2000 ء میں پیدا ہوئی اور بالغ ہے۔ اس کے شوہر محمد حسن نے عدالت کو بتایا کہ ننکانہ کی سکھ لڑکی عائشہ کو مسلمان کر کے لاہور میں اس سے شادی کی،شادی کرنے پر سکھوں کی جانب سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ہراساں کیا جا رہا ہے۔ درخواست گزار نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس معاملے پر گورنر پنجاب نے صلح بھی کروائی لیکن اس کے بعد پھر مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے لہذا عدالت سے استدعا ہے کہ تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا جائے۔