ملتان ڈویژن میں مسلم لیگ ن کی تنظیم نو

راؤ شمیم اصغر
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر خان ترین علاج کروانے کیلئے اپنے بیٹے علی خاں ترین کے ہمراہ بیرون ملک روانہ ہو گئے۔ بظاہر یہ ایک چھوٹی سی خبر ہے کہ سیاسی رہنما علاج کرانے کیلئے بیرون ملک جاتے ہی رہتے ہیں لیکن انکے بیرون ملک جانے سے سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ اب جبکہ شوگر سکینڈل کے کرداروں کیخلاف گھیرا تنگ کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ نیب اور ایف آئی اے نے ان کرداروں کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے کمریں کس لی ہیں ایسے میں وہ شخص جس کا ملک میں چینی کی پیداوار میں 22 فیصد حصہ ہے اسکے بغیر احتساب کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔ جہانگیر خان ترین اکیلئے ہی نہیں گئے وہ اپنے ہمراہ علی خان ترین کو بھی لے کر گئے ہیں۔ علی خان ترین کا ملکی سیاست میں صرف اس قدر حصہ ہے کہ انہوںنے گزشتہ الیکشن میں حصہ لیا تھا اسکے علاوہ جب انکے والد محترم اسلام آباد میں’’ سیاست سیاست‘‘ کھیل رہے تھے تو انکی موجودگی میں سیاسی رابطے برقراررکھنے کی ساری ذمہ داری ان پر عائد ہوا کرتی تھی۔ جہانگیر خان ترین اور علی خان ترین کے بارے میں زبان زدِعام یہ ہے کہ وہ مستقبل قریب میں واپس آنے والے نہیں یا کم از کم اس وقت تک واپس نہیں آئیں گے جب تک ’’حالات‘‘ ان کے حق میں نہیں ہوتے۔ شوگر سکینڈل اپنے انجام کو نہیں پہنچتا۔ علی خان ترین کے بیرون ملک جانے سے ایک نقصان ہوا ہے وہ نقصان بھی پاکستان سپر لیگ کو پہنچا ہے لیکن پاکستان سپر لیگ میں شامل چھ کرکٹ ٹیموں میں سے ایک ٹیم ’’ملتان سلطانز‘‘ کے نام سے علی خان ترین کی ہے۔ علی خان ترین اسی سال ملتان سلطانز کے مالک کی حیثیت سے منظر عام پر آئے تھے اور پہلے ہی سال انکی ٹیم پوائنٹس ٹیبل پر سرفہرست پہنچ گئی تھی۔ پاکستان سپر لیگ کے بڑے نام کوئٹہ گلیڈی ایٹرز‘ پشاور زلمی‘ لاہور قلندرز سب پس منظر میں چلے گئے تھے۔ کرکٹ کے شائقین یقیناً چاہیں گے کہ علی خان ترین واپس آئیں اور پاکستان سپر لیگ میں اپنا کردار ادا کریں اسی طرح جہانگیر خان ترین کے چاہنے والے بھی خود کو انکے بغیر ادھورا محسوس کرتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں ایک درجن سے زائد ایسے سیاستدان ہیں جنہیں الیکشن 2018 ء میں جہانگیر خان ترین کی وساطت سے ٹکٹ ملا تھا جو لوگ جیت گئے تھے انکی پارٹی میں کچھ نہ کچھ حیثیت بن گئی ہے اور وہ خود کو پارٹی میں کسی نہ کسی طور پر ایڈجسٹ کر ہی لیں گے اصل مسئلہ ان لوگوں کیلئے بنا ہے جو الیکشن ہار گئے تھے یا آئندہ پارٹی ٹکٹ کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ جہانگیر خان ترین صرف سرمایہ دار شخصیت ہی نہیں ملکی سیاست کے معروف سیاسی خانوادوںکے ساتھ انکی قریبی رشتہ داریاں ہیں۔ وہ صرف جدید ترین زرعی فارمز اور باغات کی وجہ سے ہی اس خطے میں معروف نہیں ہیں بلکہ جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں سے انکے بڑے قریبی تعلقات ہیں۔ وہ صادق آباد کے مخدوم احمد محمود کے بہنوئی ہیں اس طرح انکی پیر پگارہ ‘ سید یوسف رضا گیلانی‘ لاہور کے ہمایوں اختر اور ان کی بیگم کی سندھ کے سپیکر آغا سراج‘ خانیوال کے قمرالزماں کھگہ‘ سابق صوبائی وزیر ذاکر قریشی کے ساتھ رشتہ داریاں ہیں۔ انکی جڑیں بہت گہری ہیں او ر کہا جا رہا ہے کہ وہ کسی طور پر کمزور نہیں کہ حکومت سے ڈر جائیں۔ گزشتہ ماہ 7 مئی کے قومی افق میں بھی میرا مؤقف بڑا واضح تھا کہ جہانگیر ترین اتنا کمزور نہیں کہ حکومت اس پر ہاتھ ڈال سکے۔ اب وہ حکومت کی مرضی سے بیرون ملک گئے ہیں یا حکومت کی مرضی کیخلاف دونوں صورتوں میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انکی جڑیں کافی گہری ہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شوگر سکینڈل کا کیا بنے گا۔ اس سکینڈل کے کرداروں کی جہانگیر خاں ترین کے بغیر کیا پوزیشن ہو گی۔ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے سوا ارب روپے کمائے ہیں۔ بیرون ملک جانے سے قبل جہانگیر خان ترین تقریباً دو ماہ تک روپوش رہے دو تین مرتبہ انکے بیانات منظر عام پر آئے تھے جن کا لب لباب یہ تھا کہ وہ بے قصور ہیں انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب اصل بحث اس بات پر ہو گی کہ شوگر سکینڈل میں قانونی کام کونسے ہیں اور غیر قانونی کام کسے کہا جائے۔ وطن عزیز میں چینی وہ میٹھی شے ہے جو ماضی میں جنرل ایوب خان کی حکومت کو لے ڈوبی تھی ایوب خان کے دور میں چینی کی قیمت ایک روپے چھ آنے (تقریباً ایک روپیہ 35 پیسے) سے بڑھ کر ایک روپیہ 10 آنے (تقریباً ایک روپیہ 60 پیسے) ہو گئی تھی گویا صرف 25 پیسے قیمت بڑھنے سے وہ بھونچال آیا جو آخرکار ایوب خان کی حکومت کو لے ڈوبا۔ اس سستی اور میٹھی شے کی قیمت ایک روپیہ فی کلو بڑھنے سے اربوں روپے ادھر ادھر ہو جاتے ہیں۔ اس سال جب چینی کا بحران آیا اور اسکی قیمت 55 روپے فی کلو سے بڑھ کر 90 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تو معاملہ اربوں کا نہ رہا بلکہ کھرب سے بھی بڑھ گیا۔ احتساب حکومت کا پسندیدہ نعرہ ہے چنانچہ ایک کمیشن قائم ہوا جس کے 10 نکاتی ٹی او آرز صرف رواں سال کے چینی بحران سے متعلق تھے۔ حکومت کو جب محسوس ہوا کہ کمیشن کی رپورٹ سے اسکا مطلوبہ احتساب ممکن نہیں تو پھر احتساب کا دائرہ ماضی قریب تک بڑھایا گیا تو احتساب احتساب کا نعرہ لگانے والوں کو کسی قدر تسلی ہوئی کہ کچھ اور پردہ نشینوں کے نام بھی سامنے آگئے۔ اب معاملے کو مزید لمبا کرنے کیلئے 1985 ء سے شوگر ملز کے آڈٹ کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور بین الوزارتی کمیٹی بھی بنائی جائے گی گویا پنڈورہ باکس کھولنے کی تیاریاں ہیں۔شوگر سکینڈل کے کرداروں کا احتساب تو پہلے ہی جہانگیر خان ترین کے باہر جانے سے کمزور ہو چکا ہے اب لوگ 1985 ء تک کے آڈٹ سے یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ شوگر سکینڈل میں شاید اب جان نہ رہے۔ حکمران اور انکی انکوائری رپورٹس کا دائرہ جیسے جیسے وسیع ہو گا انہیں اس میں کئی جہانگیر خان ترین نظر آئیں گے پھر یہ مافیا جس قدر طاقتور اور مالدار ہے اس کے سامنے احتساب کا نعرہ شاید ہی ٹھہر سکے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...