تقسیم کا نعرہ بلند ہوتے ہی ہر کسی کو جان بچانے کی فکر لاحق ہو گئی : محمد صدیق

ملتان (ظفراقبال سے) آزادی قدرت کی طرف سے کسی بھی نعمت سے کم نہیں اسکی قدر وہی لوگ بخوبی جانتے ہیں جنہوں نے اس کے حصول کیلئے نہ صرف قربانیاں دیں بلکہ جانوں کے نذرانے تک بھی پیش کئے۔ ان خیالات کا یوم آزادی کے مجاہد محمد صدیق ولد ہدایت علی نے ’’ہم نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘ میں آنکھوں دیکھا حال کچھ یوں بیان کیا ۔ تقسیم کے وقت میں چوتھی جماعت میں اپنے گائوں مہسری سندھان میں سکول دارانور میں زیر تعلیم تھا اور اس وقت میری عمر کوئی 13برس تھی ۔ ضلع فیروز پور کے گائوں مہسری سندھان میں 1932ء میں پیدا ہوا تھا تو اس وقت میرے والد ہدایت علی سرکاری چوکیدار تھے۔ سکول کے زمانہ میں کرسنگھ، مہر سنگھ، مادھور سنگھ میرے ہم جماعت تو تھے ہی لیکن جگری یار بھی تھے۔ مہر سنگھ کے والد سجن سنگھ ہم تمام ہم جماعتوں سے بہت پیار کرتے۔ انہی دنوں تقسیم کا نعرہ بلند ہوا حالات اس قدر خراب ہونے لگے کہ ہر طرف سے افراتفری پھیل گئی یہاں تک کہ فسادات ہمارے گائوں تک بھی پہنچے تو ہر کسی کو جان بچانے کی فکر لاحق ہوئی۔ ہر کوئی اپنی جائیدادیں مال متاع چھوڑ کر بھاگ رہا تھا۔ قتل وغارت کا بازار گرم تھا ہمارے گائوں کے ایک مشہور زمانہ بدمعاش گرنام سنگھ سے میرے والد کی دوستی جس کی سفارش پر ہمارے خاندان کی حفاظت کیلئے ملٹری اہلکار مقرر کر دیئے گئے جن کے حصہ میں ہمارا قافلہ روانہ ہوا ۔ یہ قافلہ بڑھتے بڑھتے کوئی 8/9کلو میٹر طویل ہوگیا کئی سو کلومیٹر کی مسافت پیدل طے کرسکے مزید چلنا دشوار تھا، بھوک‘ پیاس ستائی تو مجبوراََ درختوں کے پتے توڑ کر کھانے پڑے جبکہ سفرکی تکلیف کے باعث راستہ ہی میں زندگی کی بازی ہارگئیں اس دوران میرے ماموں جن کی عمر 27 برس ہوگی اور خوبصورت گبھروکے طور پر جس کا شمار ہوتا تھا اس بے رحمی سے گنڈاسوں سے شہید کردیا گیا بڑی مشکل میں گڈا سنگھ بارڈر پر پہنچے گاڑی پر سوار ہوئے تو کوئی پرسان حال نہ تھا خدا خدا کر کے گاڑی رائیونڈ لاہور ریلوے اسٹیشن پرآ گئی جہاں تین دن تک رہائش ملی۔ گاڑی کے اندر ایک ایسی وباء پھیلی کہ ہر کسی کو الٹیاں لگ گئیں جس سے سینکڑوں مہاجرین وبا کی بھینٹ چڑھ گئے۔ کفن دفن اور تدفین میں مشکلات کے باعث رائیونڈ اسٹیشن کے ساتھ ویرانے میں اجتماعی قبریں کھود کر تدفین کرنا پڑی جہاں ہر ایک قبر میں 313 افراد کو دفن کیاگیا۔ یہی پر رائیونڈ کے مکینوں نے دال چاول سے آئو بھگت کی جسے کھا کر سکھ کا سانس لیا پھر اسی ٹرین کے ذریعے ہمارا قافلہ چیچہ وطنی پہنچا جہاں پر کچھ دن رہائش پذیر ہونے کے بعد چک 79 میں مستقل سکونت اختیارکر لی۔ محمد صدیق نے کہا ہم پرانے وقتوں کے لوگ ہیں مگر آج نیا پاکستان کا نعرہ سن کر دل بہت دکھی ہو جاتا ہے کہ جس مقصد کیلئے ہمارے اکابرین اور قائدین نے پاکستان بنایا تھا آج ہم اس مقصد سے کوسوں دور چلے گئے ہیں وہ دن یاد آتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے مگر افسوس اتنے بڑے سانحہ کے بعد ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور آج ریاست مدینہ اور نیا پاکستان کے نام پر لوٹ مار اور کرپشن کا بازار گرم ہے۔

ای پیپر دی نیشن