چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امن، رابطے اور مشترکہ خوشحالی کیلئے پاکستان کے وژن کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے مذاکرات پر مبنی تصفیہ کیلئے افغان امن کے عمل میں سہولت فراہم کرنے کی ہر ممکن پر خلوص کوشش کی اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ اجتماعی ذمہ داری کے طور پر تمام سٹیک ہولڈرز کو افغانستان میں پائیدار امن کیلئے اپنا اپنا کردار مثبت انداز میں ادا کرنا ہو گا جو خطے میں استحکام کیلئے اہم ہے۔ خرابی پیدا کرنے والوں کے منصوبوں کو ناکام بنانے کیلئے غلط فہمیاں پیدا کرنے اور کسی کو قربانی کا بکرا بنانے سے گریز کرنا چاہئے۔ آرمی چیف نے ان خیالات کا اظہار جی ایچ کیو میں 242ویں کور کمانڈرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا جو انکی سربراہی میں منعقد ہوئی۔ آرمی چیف نے جامع بارڈر مینجمنٹ رجیم کے تحت مؤثر بارڈر کنٹرول کو یقینی بنانے کیلئے کیے جانیوالے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا اور مغربی سرحد کے ساتھ اعلیٰ سطح کی نگرانی رکھنے کی ہدایت کی۔
افغانستان کے اندر تیزی سے بدلتی صورتحال کے اثرات پڑوس میں منتقل اور مرتب ہونا فطری امر ہے۔ امریکہ کی طرف سے افغانستان میں سب کیلئے قابل قبول سیاسی سیٹ اپ کی تشکیل کا موقع ضائع کردیا گیا۔ اب افغانستان میں طاقت کا کھیل جاری ہے جس میں بادی النظر میں طالبان امریکہ کی قائم کردہ حکومت پر بھاری پڑ رہے ہیں۔ افغانستان کے کئی سرحدی علاقوں پر طالبان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ گزشتہ روز تین مزید صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کیا گیا۔ پانچ روز میں 9 ایسے دارالحکومت طالبان کے مکمل تسلط میں آچکے ہیں۔ طالبان کا افغانستان کے نوے فیصد علاقوں پر قبضے کا دعویٰ ہے۔ یورپی یونین کے ایک ذمہ دار عہدیدار کی طرف سے اعتراف کیا گیا ہے کہ طالبان 65 فیصد علاقوں پر قابض ہو چکے ہیں۔ طالبان کی اس طرح پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے امریکی حکام کی طرف سے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا گیا ہے کہ افغان حکومت تین ماہ بعد ختم ہو جائیگی، نومبر میں طالبان کابل پر بھی قبضہ کرلیں گے۔ اُدھر قندوز میں محصور سینکڑوں فوجیوں نے ہتھیار ڈال کر اشرف غنی کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ پے در پے فوجی ناکامیوں پر صدر اشرف غنی نے آرمی چیف عبدالولی کو برطرف کر دیا‘افغان وزیر خزانہ خالد پائندہ ملک سے فرار ہوگئے‘ وزیر داخلہ نورالحق علوی کو اشرف غنی پہلے ہی تبدیل کرچکے ہیں۔
رواں سال کے آغاز کے بعد تین لاکھ ساٹھ ہزار افراد لڑائی کے باعث نقل مکانی کرچکے ہیں۔ طالبان کی طرف سے قندوز کے بعد فرہ ایئرپورٹ پر بھی قبضہ کرلیا گیا۔ طالبان کی طرف سے ہتھیار پھینکنے والے فوجیوں کیلئے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ گھروں کو جا سکتے ہیں۔ اشرف غنی حکومت کو اپنی فضائیہ کی طرف سے بڑا تحفظ تھا۔ امریکی بھی اسکی مدد کرتے تھے۔ اب ایئرپورٹس بھی طالبان کے قبضے میں آنے کے بعد اشرف غنی انتظامیہ کا یہ محاذ بھی کمزور پڑ رہا ہے۔ طالبان نے ایک ایرانی ڈرون گرا کر اور بھارت کا افغان حکومت کو تحفے میں دیا گیا بھارتی ہیلی کاپٹر قبضہ میں لے کر حکومت کی فضائی برتری کا طلسم بھی توڑ دیا۔ طالبان کی تیزی کے ساتھ حاصل کی گئی کامیابیاں کابل کیلئے بڑا چیلنج ہیں۔ اشرف غنی پر مستعفی ہو کر عبوری حکومت بنانے کیلئے دبائو بڑھ رہا ہے۔ اشرف غنی شاید ’’اخیر‘‘ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کیلئے دانش مندی سے فیصلہ کرنے کا یہی ایک مناسب وقت ہے۔ وہ ذاتی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچیں‘ خانہ جنگی کی آگ پھیلتی جا رہی ہے جس کی زد میں بے قصور لوگ آرہے ہیں‘ وہ کہاں جائیں۔ افغانستان کے پڑوسی ممالک کیلئے پناہ دینے کا تجربہ بڑا تلخ رہا ہے۔ وہ ایسا تجربہ دہرانا نہیں چاہتے۔
ایک طرف طالبان تیزی سے اپنے مقبوضات میں اضافہ کر رہے ہیں‘ دوسری طرف وہ دوحہ میں جاری ٹرائیکا پلس اجلاس میں بھی شرکت کر رہے ہیں۔ بنیادی طور پر مذاکرات امریکہ طالبان اور افغان حکومت کے مابین ہو رہے ہیں جن میں پاکستان‘ روس‘ چین اور یواے ای کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ فریقین نے مذاکرات سے افغان مسئلے کے حل پر اتفاق کیا۔ طالبان کی طرف سے کہا گیا کہ وہ نہیں چاہتے کہ مذاکرات ناکام ہوں۔ ادھر افغان حکومتی وفد نے ثالث کے کردار کو مسترد کردیا ہے۔ طالبان آج بھی عبوری حکومت کے قیام پر آمادہ ہیں جو افغانستان میں آزادانہ انتخابات کرائے۔ اشرف غنی انتظامیہ ہرصورت اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتی ہے جو بدترین بدامنی کی سبب بن رہی ہے۔
پاکستان کی طرف سے افغان مسئلہ پرامن طور پر حل کرانے کیلئے پوری کوشش کی گئی۔ امریکہ اور طالبان کے مابین امن معاہدہ پاکستان کے توسط سے طے پایا۔ امریکہ نے سیاسی سیٹ اپ کی طرف توجہ دی ہوتی تو حالات یوں بے قابو نہ ہوتے۔ اشرف غنی انتظامیہ انا کے خول اور اقتدار کے لالچ سے باہر نہیں نکلتی تو حالات اپنا راستہ خود بنائیں گے جو بنتا ہوا نظر بھی آرہا ہے۔ پاکستان کو خطے میں امن سے سروکار ہے‘ ساتھ ہی افغان امن بھی ترجیحاً درکار ہے۔ پاک فوج اور حکومت کی طرف سے صورتحال کے تناظر میں مطلوبہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ ان میں سب سے اہم بارڈر مینجمنٹ ہے جس کے ذریعے پاکستان میں بارڈر پار سے آنیوالوں کو داخل ہونے سے روکنا ہے۔