قتل حسین اصل میں مرگ یذید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
مولانا محمد علی جوہر کے اس شعر میں اسلام کی داستان اور تاریخ رقم ہے مولانا صاحب کو دعائیں دینے کو جی کرتا ہے۔ اللہ کریم نے ایک شعر سے انہیں عزت وتکریم کی وادی میں پہنچا دیا۔ یکم محرم الحرام سے دس تاریخ تک کوئی محفل‘ کوئی مجلس اور کوئی دینی اجتماع ایسا نہیں جہاں جوہر صاحب کا شعر اپنی موجودگی کا احساس نہ دلاتا ہو۔ یہ محبتوں اور یہ امن اور یہ صبرو استقامت کی باتیں ہیں ۔ یہی اسوہ شبیریؓ اور پیغام کربلا ہے۔ ظلم کے خلاف ڈٹ جانا اور جبر سہہ کر صبر کے گلاب اپنے پاس رکھنا یہ معمولی کام نہیں! جوش ملیح آبادی نے ٹھیک کہا تھا کہ جب تک ظلم اور ناانصافی ہے ، انسانیت صبر حسینؓ سے روشنی لے کر سامراج کا سامنا کرکے سرخرو ہوتی رہے گی
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ
محرم رواداری‘ باہمی احترام‘ محبت اور اپنائیت واخوت کا مہینہ ہے۔ معلوم نہیں کن سازشی عناصر نے اس ماہ مقدس کو سیکورٹی ایشو سے معنون کردیا۔ اب محرم الحرام آتے ہی پورے ملک میں اضطرابی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ قیام امن کی میٹنگ اور اتفاق رائے کی تعمیری کوششیں ہونے لگتی ہیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی باتیں اور نصحیتیں سنی جاتی ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ نواسہ رسول تو پوری امت کا افتخار اور اعجاز ہیں۔ عالم اسلام بالخصوص پاکستان کو جس صورتحال کا سامنا ہے کیا اس میں اہم ہے کہ ہم چھوٹے چھوٹے فروعی اختلافات کو ہوا دیں؟ ایک دوسرے کی پگڑی اچھالیں اور اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کیلئے قوم کو تقسیم در تقسیم کرتے چلے جائیں۔ اگر بات فروعی اختلافات اور خود ساختہ تنازعات کی ہو تو اللہ اور اس کے اسوہ رسول ؐ کے سامنے ان کی کیا اہمیت ہے؟ حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ کے رسول ؐنے آخری خطبے میں کیا ارشاد فرمایا تھاکہ ’’ کسی کالے کو گورے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں۔ برتری کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ یعنی اللہ کو ایک کلمہ گو حبشی ایک گورے مسلمان سے زیادہ عزیز ہے جو تقویٰ میں اپنے گورے بھائی سے برتر ہے‘‘۔ آپؐ نے زمانہ جاہلیت کے تمام خون معاف فرماتے ہوئے واضح کر دیا تھا کہ مسلمان پر مسلمان کا خون حرام ہے ، اس واضح ارشاد مبارک کے باوجود اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کردیتا ہے تو یہ حرام عمل ہے اور اس کی سزا بہت سخت اور پکڑ بہت ہی شدید ہے۔یقینا پاکستان کے قیام اور اس کے استحکام میں علمائے کرام اور دینی شخصیات کا کردار ہماری تاریخ کا روشن باب ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کوشش میں کسی نے فرقہ کی بنیاد پر کام نہیں کیا تھا۔لیکن وطن عزیز کے معروضی حالات جن میں وطن دشمن قوتیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے ہمارے پیارے ملک کی آزادی اور سا لمیت کو دائو پر لگانے کے در پے ہیں امید ہے کہ علمائے کرام اور مذہبی شخصیات قومی یکجہتی ملکی استحکام، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مجموعی امن و امان کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کرتے رہیں گے۔ انہی توقعات کی بناء پر حکومتی ذمہ داران نے بروقت علماء کرام کو اپیل کی ہے جس کے یقینا مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔میرے خیال میںخیبرپختونخوا حکومت کے اقدامات کے علاوہ وفاقی سطح پر بھی اس سلسلے میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ہمارے ملک کے معروضی حالات بھی اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ قومی سطح پر مفاہمت اور مشاورت کے عمل کو موثر بنانے کے علاوہ نہ صرف اندرونی محاذ آرائی پر بھی خاص توجہ دی جائے بلکہ اس عمل کو مزید موثر اور مضبوط بنانے کی مربوط کوششیں کی جانی چاہئیں اور تمام معاملات کو پارلیمنٹ میں پیش کر کے اراکین پارلیمنٹ کی آراء کی روشنی میں وسیع تر قومی مفاد کی حامل جامع پالیسیاں وضع کی جانی چاہئیں اور بیرونی سطح پر دیگر ممالک میں قائم سفارتخانوں کو بھی متحرک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اقوام عالم میں پاکستان کے تشخص کو خراب کرنے کی کوششوں کو ناکام بنا یا جاسکے۔ کیونکہ اجتماعی مشاورت اور عوام کو اعتماد میں لینے سے ہی ہم ملک اور امن دشمن قوتوں کے جارحانہ عزائم کو ناکام بنا سکتے ہیں … یاد رکھیں !کربلا اور کربلا والوں کے وارث مسلمان ہیں پھر مسلمان پیغام کربلا اور اسوہ شبیری ؓپر علیحدہ علیحدہ رائے کیسے رکھ سکتے ہیں؟
مسلمان کی شان تو یہ ہے کہ رحیم یار خان میں مندر پر شر پسندوں نے حملہ کیا جسکا درد ہر مسلمان نے محسوس کیا۔ مسلمان کسی طور پر غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی شوکت و حشمت میں گستاخی نہیں کرسکتا۔ ڈی آئی خان کے بعد اب امن ، پاکستان اور اسلام دشمنوں نے رحیم یار خان میں مندر کو نقصان پہنچایا۔ یقین کریں رواں ہفتے کے دوران میں جس تقریب کا حصہ رہا یا شخصیات سے ملتا رہا سب نے مندر کو نقصان پہنچانے کی مذمت کی۔ وزیراعظم عمران خان کا نوٹس‘ قومی اسمبلی کی مذمتی قرارداد اور عدالت عظمی کی اس حوالہ سے کارروائی سب کی سب یہ ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان پر اقلیتوں کا اسی قدر حق ہے جس قدر ہم محبت کے دعویدار ہیں ۔ہم ان سطور کے ذریعے وزیراعظم عمران خان اور وزیر داخلہ شیخ رشید سے ملتمس ہیں کہ وہ مندر پر حملے اور اس شرارت میں ملوث ملزمان کو بے نقاب کرکے انہیں نشان عبرت بنائیں۔