لیاقت پورکوضلع کا درجہ دینے کی ضرورت

قیام پاکستان سے اب تک ملک میں کئی نئے ڈویڑن اور اضلاع بنائے گئے  تاکہ ان علاقوں کے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں لائی جاسکیںمگر بہاول پور ایسا بدقسمت ڈویڑن ہے کہ ضرورت، اہمیت اور میرٹ رکھنے کے باوجود اس میں کوئی نیا ضلع نہیں بنایا گیا، ریاست بہاول پور کے دور میں "چَودری" اور 1956 میں لیاقت پور کا نام پانے والی ضلع رحیم یار خاں کی یہ تحصیل اپنی آبادی، جغرافیہ، ڈویژنل و ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز سے دوری، علاقائی پسماندگی اور بڑھتے ہوئے عوامی مسائل کے باوجود ضلع کا درجہ حاصل نہ کر سکی جب بھی اس تحصیل سے ضلع کے حوالے سے آواز اٹھی ملحقہ تحصیلوں کے نمائندگان نے اپنی ڈفلی بجانا اور راگ الاپنا شروع کر دیا مزید بدقسمتی یہ کہ لیاقت پور کے منتخب ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے بھی متعلقہ فورمز پر ضلع کے حوالے سے کوئی ٹھوس اور جاندار آواز نہیں اٹھائی، غالباً دو سابق ارکان صوبائی اسمبلی نے اپنے اپنے ادوار میں اس حوالے سے قرار دادیں اسمبلی سیکریٹیریٹ میں جمع کروا کے "گْلوں میں رنگ بھرا" اور پھر خاموش کی چادر تان کر سکون کی وادیوں میں اتر گئے موجودہ ارکان اسمبلی بظاہر لیاقت پور کو ضلع بنانے کے حوالے سے اپنے عزم صمیم کا اعادہ کرتے نظر آتے ہیں صوبائی پارلیمانی سیکریٹری عامر نواز چانڈیہ نے اپنی پہلی اسمبلی تقریر میں بھی لیاقت پور کو ضلع بنانے کا مطالبہ کیا مگر ازاں بعد وزیراعلی پنجاب سے قریبی تعلق استوار کر لینے کے باوجود اس ایشو پر کوئی پیش رفت نہیں کر سکے۔
 لگتا یوں ہے کہ تحصیل لیاقت پور کے منتخب ارکان اسمبلی کو شائد یہاں کی آئندہ نسلوں کے محفوظ اور باوقار مستقبل بارے خاطر خواہ ادراک یا باہمی سیاسی کھینچا تانی سے فرصت نہیں، تحصیل لیاقت پور کے  قومی اسمبلی کے ایک اور صوبائی اسمبلی کے دو ارکان کا تعلق حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف سے جبکہ ایک  رکن صوبائی اسمبلی پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے تاہم وہ بھی آج کل وزیر اعلی پنجاب کی محبتوں کا دم بھرتے اور ترقیاتی فنڈز حاصل کرتے نظر آتے ہیں تمام تر حکومتی حمائت اور فیض حاصل ہونے کے باوجود ان ارکان اسمبلی کی طرف سے اپنے اپنے ایوانوں میں لیاقت پور کو ضلع کا درجہ دلانے کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ کاوش نظر نہیں آتی، تاریخی شہر اور سابقہ ریاست بہاول پور کا اولین (1728 تا 1748) دارلحکومت الہ آباد بھی اسی تحصیل میں واقع ہے، تحصیل لیاقت پور کی آبادی اورعوم کے مسائل مسلسل بڑھ رہے ہیں ایشیائ￿  کی سب سے بڑی گڑ منڈی کا اعزاز، ایک میونسپل کمیٹی، ایک سب تحصیل، 37 یونین کونسلیں، پندرہ سے زیادہ بڑے قصبات، 4 ہزار 644 مربع کلومیٹر رقبہ، وسیع دریائی و ریگستانی و عباسیہ کی لہلہاتی اراضیات رکھنے اور بھاری ریونیو دینے والی اس تحصیل کے نوجوان مایوسی و نا امیدی کا شکار اور تعلیمی و معاشی عدم تحفظ کے سایہ میں زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔
 ہر سال ہزاروں طلباء  و طالبات ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیم کے امتحانات اچھے نمبروں میں پاس کرلینے کے باوجود مزید  تعلیم اس لیئے حاصل نہیں کر پاتے کہ ان کے لئے مقامی سطح پر ادارے موجود نہیں جبکہ غربت و افلاس ان کے بیرون شہر حصول تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہے خصوصاً طالبات اپنی خاندانی روایات و رسوم کی وجہ سے بھی گھروں سے دور نہیں جا سکتیں، تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال سمیت پانچ رورل ہیلتھ سینٹرز اور 28 بنیادی مراکز صحت میں سپیشلسٹ ڈاکٹرز موجود نہیں جس کی وجہ سے مریضوں کو رحیم یار خان اور بہاولپور کے ہسپتالوں میں ریفر کر دیا جاتا ہے جن میں سے بڑی تعداد راستہ میں ہی دم توڑ جاتی ہے پاکستان کی تاریخ میں سیاسی مصلحتوں کے تحت کئی ایسی غیر موزوں اور غیر مستحق تحصیلوں کو بھی اضلاع کا درجہ دیا گیا جن کی آبادی اور ضلعی ہیڈکوارٹرز سے فاصلہ لیاقت پور کے تناسب سے کہیں کم تھا کہنے کو تو تحصیل ہیڈ کوارٹر لیاقت پور سے ضلعی ہیڈکوارٹر رحیم یار خان اور ڈویڑنل ہیڈ کوارٹر بہاولپور کا فاصلہ سو سو کلو میٹر ہے مگر حقیقت میں دور دراز کے دریائی اور صحرائی علاقوں کے رہائشی عوام کو یہ فاصلہ ڈیڑھ سے دوسو کلومیٹر تک پڑتا ہے، لوگوں کو اپنے ضلعی و ڈویڑنل سطح کے امور کے لیئے کئی کئی گھنٹے اور بھاری کرائے بھاڑے خرچ کر کے رحیم یار خاں اور بہاول پور جانا پڑتا ہے اور عمومی طور پرایک ایک کام کے لیئے کئی کئی چکر لگانے پڑتے ہیں۔
 میرٹ اور انصاف کا تقاضہ ہے کہ 12 لاکھ نفوس سے زیادہ آبادی پر مشتمل اس تحصیل کو ضلع کا درجہ دیا جائے تاکہ یہاں کے محروم و پسماندہ شہری بھی  تعمیر و ترقی کے نئے دور میں داخل ہو کر زندگی کی بنیادی سہولتوں سے مستفید ہو سکیں اس مقصد کے لیئے وزیراعظم پاکستان، وزیراعلیٰ پنجاب اور تمام متعلقہ ذمہ داران فوری طور پر اقدامات کریں گزشتہ چند ماہ سے لیاقت پور ضلع بناؤ تحریک بھی منظم انداز میں تحصیل کے سیاسی، کاروباری و سماجی طبقات میں شعوری بیداری کا کام کر رہی ہے اس سلسلہ میں تحریک کے اکابرین رکن قومی اسمبلی مخدوم سید مبین احمد، ارکان صوبائی اسمبلی چوہدری مسعود احمد، سردار عامر نواز خان، سابق وفاقی وزراء صاحبزادہ سید حامد سعید کاظمی، مخدوم سید احمد عالم انور، سابق ارکان صوبائی اسمبلی چوہدری محمود احمد، قاضی احمد سعید، رئیس محمد اقبال، میاں اسلام اسلم، کے علاوہ لوکل گورنمنٹ کے منتخب نمائندگان، تاجر و وکلاء رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کے عہدیداران سے ملاقاتیں کرکے انہیں لیاقت پور کو ضلع بنانے کے حوالہ سے کردار ادا کرنے کی ضرورت کا احساس دلا چکے ہیں جنہوں نے اس تحریک کی کامیابی کے لیئے بھرپور جدوجہد کی یقین دہانی بھی کرائی ہے تاہم یہ تحریک اسی صورت اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکتی ہے جب منتخب ارکان اسمبلی اپنے باہمی اختلافات پس پشت ڈال کر لیاقت پور ضلع بناؤ کے یک نکاتی ایجنڈے پر متحد و متحرک ہوں۔

ای پیپر دی نیشن