سوا سال کے بچے کو ماں سمیت بیدردی سے قتل کردیا گیا‘نور مقدم پر بہیمانہ تشدد کے بعد اس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔میاں بیوی نے ایک دوسرے پر گولی چلا کے بری طرح زخمی کر دیا‘ غبارہ بیچنے والے بچے کو ایک امیر زادے نے معمولی قیمت زیادہ بتانے پر اپنے وحشی کتے سے شدید زخمی کروا دیا‘کم عمر بچوں اور بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کیا جانا‘لوٹ مار۔کرپشن۔زمینی تنازعوں پر خاندان کے خاندان کا خون‘معمولی باتوں پر جھگڑے فساد ‘یہ وہ خبریں ہیں کہ جو کسی بھی حساس طبیعت کے انسان کی راتوں کی نیندیں اڑا سکتی ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ ہم کس جنگل میں اور کن درندوں کے بیچ رہ رہے ہیں۔سچ ہے انسان کے اندر کا درندہ جاگ اٹھے تو دنیا کے ہر وحشی جانور سے زیادہ خطرناک ظالم اور بے حس ہوتا ہے۔ایک ایسے معاشرے میں زندہ رہنا کس قدر اذیت ناک ہے جہاں ہر طرف ذہنی بیمار اور سنگدل لوگوں کی اجارہ داری ہو۔دین کے اصولوں اور ریاستی قانون کی سرعام دھجیاں اڑائی جارہی ہوں۔۔اور بے حسی اس قدر کہ بڑے بڑے سانحے بھی واقعے کی صورت اختیار کر جائیں۔۔ایکسیڈنٹ ہو یا کوئی اور معاملہ سڑک پہ پڑے تڑپتے اجسام کی ویڈیو بنانے والے تو سینکڑوں ہوتے ہیں مگر مدد کرنے والا کوئی نہ ہو۔بے راہروی اور بے حیائی کو برائی تو کجا معیوب بھی نہ سمجھا جائے بلکہ میڈیا کی جانب سے ایسے اقدامات کی بھرپور حوصلہ افزائی ہو اور حکومت کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کی جائے اور معاشرے کو اس رو میں بہنے کی اجازت دے دی جائے۔وہاں ایسی خبریں معمول بن جاتی ہیں۔لمحہ فکریہ ہے حکومت وقت کے لیے سماجی اور تعلیمی اداروں کے لیے۔قوم کی بنیادی اخلاقی اور سماجی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ایسے اقدامات کی سخت ضرورت ہے کہ جو ان واقعات کی بنیادی اور ابتدائی وجوہات کی روک تھام کر سکیں۔ماں باپ اساتذہ اور معاشرے کا ہر فرد اس تربیت کی ضرورت کا حامل ہے۔انسانی قدرروں کو زندہ کیا جائے ان روایات کو پھر سے اجاگر کیا جائے جن کے تحت معاشرتی اخلاقیات قائم رہتی ہیں۔معاشرے کو سادہ اور باہمی ربط و تعلق والے ماحول کی طرف لوٹایا جائے تاکہ سب ایک دوسریکی سوشل میڈیا کی بجائے براہ راست خبر رکھ سکیں۔تعلیمی اداروں کو تربیتی ادارے بنایا جائے۔۔بلکہ تربیت بالغاں کے خصوصی ادارے قائم کیے جائیں کیونکہ آج بچوں سے زیادہ بڑوں کی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔۔مخصوص قوانین لاگو کیے جائیں جن کی پابندی ہر سرکاری اور پرائیویٹ سکول کالج اور یونیورسٹی کے لیے لازمی ہو۔بے حیائی کو کنٹرول کرنے کے لیے باضابطہ کاروائی کی جائے۔غلط اور درست کی پہچان کے لیے شعوری تربیت کا ہر ممکن اہتمام کیا جائے۔۔ماہرین نفسیات کی مدد سے سوچ میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے خصوصی ادارے بھی قائم کیے جائیں اور ہر ادارے میں ماہر نفسیات کی موجودگی کو لازمی قرار دیا جائے۔اگرچہ مندرجہ بالا ایک خبر نفسیاتی ادارے سے متعلقہ ہے مگر یہ اس ادارے کی اہمیت کو کم نہیں کر سکتی کیونکہ درندے تو ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہیں۔بہت سے قاتل اور ڈاکو ڈاکٹرز بھی موجود ہیں جو صرف پیسے کو مقصد حیات بنائے ہوئے ہیں۔اسی طرح انجینئر وکیل جج بنکر بزنس مین غرض ہر شعبہ حیات میں درندوں اور بے حسوں کی کمی نہیں ہے۔
ضرورت اسی امر کی ہے کہ ہر شعبے کی تربیت انسانی اخلاقی مذہبی اور معاشرتی بنیادوں پر کی جائے تاکہ بہترین رویوں اور انسانیت سے بھر پور کرداروں کا حصول ممکن ہو سکے اور اس مقصد کو نیک نیتی سے اولین ترجیح دی جائے۔جب بنیادی تربیت اچھی ہوگی تو رشوت سفارش کرپشن اور دیگر معاشرتی برائیوں کا خاتمہ نہ ہوسکا تو ان کی شرح ضرور کم سے کم ہوگی۔ کیونکہ مکمل خاتمہ تو خیر ممکن ہی نہیں۔اس کے ساتھ ساتھ تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں جامع مساجد تعلیمی اداروں میں اور محلہ کی سطح پر باقاعدگی سے ہفتہ وار اخلاقی لیکچرز کا اہتمام کیا جائے۔یقینا مسلسل اور مخلصانہ کوشش بار آور ثابت ہوگی۔کیونکہ مسلسل گرنے والے پانی کے قطرے پتھر کو بھی پگھلا دیتے ہیں۔اگر یہ سب نہ کیا گیا تو ہماری نوجوان نسل بے راہروی اور بے حسی کا شکار ہو کر گندگی اور اخلاقی پستی کے ایسے گڑھے میں گر جائے گی جس سے نکالنا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔