سول نافرمانی کی تحریک

مسلم لیگ کی مخالف سیاسی جماعتوں کا آخری حربہ یہ تھا کہ جن علاقوں میں پاکستان بننا تھا وہاں سیاسی بحران پیدا کرتے ہوئے تشدد کی کاروائی کو تیز کر دیا جائے۔ ۱۹۴۶ء کے انتخابات کے نتیجہ میں سندھ حکومت کو متزلزل کرنے کی کوشش جاری تھی تو پنجاب میں مسلم لیگ اکثریتی جماعت کو حکومت بنانے کا موقع نہیں دیا جارہا تھا۔خضرحیات خان نے چند گروہوں کی مدد سے پنجاب حکومت پر قبضہ کر لیا تھا کیونکہ انگریز گورنر کی اْسے آشیرباد حاصل تھی۔ مسلم لیگ کے اراکین کو ہر طرح سے پریشان کیا جارہا تھا۔ اس پس منظر میں مسلم لیگ نے پنجاب میں دوبارہ انتخابات کروانے کا مطالبہ کر دیا جس کی وجہ سے خضرحیات کی پریشانیوں میں اضافہ ہو گیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اگر دوبارہ انتخابات ہوئے تو ان کی جماعت کا جنازہ نکل جائے گا۔
یونی نسٹ پارٹی اْس زمانے میں وہ پارٹی تھی جس کا عوام میں تو کوئی وجود نہ تھا لیکن جاگیردار اپنے حلقوں سے منتخب ہو کر اسمبلی میں ایک سیاسی جماعت ہونے کا دعویٰ کرتے تھے حالانکہ اس جماعت کا اپنا کوئی سیکرٹریٹ تک نہ تھا۔ رکن سازی کا اْس جماعت میں کوئی تصور نہ تھا۔
اس پس منظر میں خضر حکومت کا مسلم لیگ کے خلاف رویہ روز بروز سخت ہوتا گیا۔ 24؍جنوری 1947ء کو خضر حکومت نے مسلم لیگ نیشنل گارڈ کو غیرقانونی قرار دیا اور گورنر نے نیشنل گارڈ کی وردیوں کو بھی خلاف قانون قرار دیا۔ فوراً ہی پنجاب پولیس نے نیشنل گارڈ کے دفتر پر دھاوا بول دیا۔ مسلم لیگ ارکان نے بھرپور مزاحمت کی۔مسلم لیگی قیادت پولیس کی حرکت کی اطلاع پاتے ہی نیشنل گارڈ دفتر پہنچی۔ میاں افتخار، نواب آف ممدوٹ، بیگم شاہ نواز، ملک فیروز خان نون، سردار شوکت حیات، میاں ممتاز دولتانہ پولیس کی کاروائی میں مزاحم ہوئے جس کے نتیجہ میں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس طرح نافرمانی کی تحریک کا بغیر کسی منصوبہ کے آغاز ہو گیا۔ سنا گیا تھا کہ قائداعظم کو بھی تحریک کے منصوبہ کا علم نہ تھا۔ لاہور میں طالب علم سائیکل جلوس کی شکل میں مال روڈ پر اکٹھے ہوئے۔ میں ایف سی کالج والے گروہ کے ہمراہ اسی اجتماعل میں شامل تھا۔ ہم پر آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے۔
اگلے روز چچا بہادر علی نے اطلاع دی کہ ابا جی کی پاکپتن میںگرفتاری ہوگئی ہے۔ پھر چاچا جعفر حسین ساہیوال سے گرفتار ہوئے۔ اس صورتحال کے پیش نظر میں پاکپتن روانہ ہو گیا کیونکہ گرفتاریوں کے باعث مسلم لیگ کے پاکپتن میں جلسوں کو بھی جاری رکھنا تھا۔
تحریک کے دوران میں پاکپتن اور لاہور کے درمیان شٹل کرتا رہا۔ لاہور میں ہم جلوس نکالتے، پولیس طالب علموں کو جیل بھیجنے کی بجائے شام ڈھلے ٹرکوں میں سوار کر کے لاہور سے دور جاکر رہا کر دیتی۔ سردی میں ٹھٹھرتے طالب علم پیدل بھوکے پیاسے واپس لاہور آتے۔ دو تین روز کے بعد ابا جی کو ملنے ساہیوال جیل چلا جاتا۔ اس تحریک کو کامیاب بنانے میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے بنیادی کردار ادا کیا۔ طالب علموں کے رہنما بشمول افضل پراچہ، منیرالدین چغتائی، آفتاب احمد قریشی گرفتار ہوکر جیل بھیجے گئے۔
اس کے بعد صوبائی اسمبلی کے منتخب مسلم لیگی ارکان بشمول صوفی عبدالحمید، بیگم تصدق حسین نے گرفتاریاں پیش کیں۔ اس طرح لاہور میں نافرمانی کی تحریک میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔گورنمنٹ ہاؤس کے باہر احتجاج میں پولیس نے طالب علموں پر وحشیانہ انداز میں لاٹھیاں برسائیں۔ اسلامیہ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر عمر حیات ملک بھی جو بڑے فعال لیگی کارکن تھے، گرفتار ہوئے جس کی وجہ سے طالب علموں میں مزید اشتعال پیدا ہوا۔بالآخر تحریک کامیاب ہوئی۔ 2؍مارچ کو خضرحیات نے استعفیٰ دے دیا۔ اس سے پہلے اس کا فرضی جنازہ بھی نکالا گیا تھا۔ اسلامیہ کالج کے طالب علم عبدالمالک کی شہادت بھی اسی دوران ہوئی۔ کامیابی کے ردعمل میں تاراسنگھ نے پاکستان کے خلاف بہت زہر اگلا تھا۔ مسلم لیگ کی تاریخی کامیابی کو گورنر اور کانگریس اور سکھ جماعت نے بالآخر ناکامی میں تبدیل کروا دیا۔ مسلم لیگ کو حکومت نہ کرنے دی اور گورنر راج قائم ہوگیا۔

ای پیپر دی نیشن