ایک دن میں سردیوں کے سہانے موسم میں ایک پارک میں بیٹھا خوش گوار موسم سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ کتاب کے مطالعہ میں مگن تھا کہ اچانک میرے سامنے کیمرہ کے فلیش کی مانند روشنی کاایک بڑے ہیولہ چمکااور میری آنکھیں چندھیا گئیں کچھ لمحات بعد نظر بحال ہوئی تو سامنے ایک رومی ٹوپی پہنے اور ہاتھ میں لاٹھی لئے قوی الجثہ اور دراز قد کے مالک ایک باریش بابا جی نظر آئے تو میں ڈر گیا کہ یہ کہاں سے اور کیسے نمودار ہوگئے ابھی میں اسی شش و پنج میں تھا کہ بابا جی بول اٹھے بیٹا ڈرو مت میرا نام بابا برکت ہے اور ٹائم مشین کے ذریعہ ماضی سے حال میں آ چکا ہوںباقی باتیں بعد میں ہوں گی پہلے آپ کیا مجھے اجازت دیں گے کہ میں آپ کے ساتھ بیٹھ سکوں؟ میں نے اپنے حواس قائم رکھتے ہوئے بابا برکت کو اثابت میں سر ہلاتے ہو ئے بیٹھنے کی اجازت دے ڈالی بابا جی جی نے تعارف کرواتے ہوئے کہا بیٹا میں تحریک آزادی پاکستان کا سر گرم اور متحرک کارکن تھا اور مجھے آزادی کے دیگر متوالوں کی طرح میری بھی یہ آرزو تھی کہ میں آزادی کے بعد کے پاکستان کو دیکھوں۔ سو اس خواہش نے مجھے ٹائم مشین پر کام اور تجربات کرنے کے لئے ابھارا اور آج میں اس تجربہ کی بنا پر 1945ئمیں سے نکل کر2022 ء میں آنکلا ہوں جس پر میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں اور میں اپنے تجربہ میں کامیاب رہاالبتہ میری ٹائم مشین کی سیٹنگ کے مطابق مجھے صرف اس نئے پاکستان میں گھومنے پھرنے اور مشاہدہ کرنے کے لئے چند دن ہی ملے ہیںسوچا کسی سے اپنے دل کا غبار ہلکا کر لوں تم مجھے بھلے انسان لگے سو تمہارے پاس آگیا اب جبکہ میرا مشن مکمل ہو چکا ہے نئے پاکستان کو دیکھ کر میں بیک وقت بہت خوش بھی ہوں اور رنجیدہ بھی ہوں۔ بٹوارے سے قبل ہم سب مسلمانوں کو یہ بڑی اچھی طرح پتہ تھا کہ تاج برطانیہ برصغیر سے روانگی سے قبل ہندو بنئے کو اسکی چاکری کا صلہ دینے کے لئے انگریز بہادرجٖغرافیہ کے ساتھ ساتھ اثاثوں کی تقسیم میں ڈنڈی مارے گا اور پھرایسا ہی ہو ا اور پاکستان کے حصہ میں آنے والی چیزوں کو پوروں پر گنا جا سکتا تھا ، بابا جی زمین پر لاٹھی گھماتے ہوئے باتیں کئے جارہے تھے اور میں سر ہلاتا جا رہا تھا ۔ بولے میں بہت خوش ہوں آج پاکستان میں ہزاروں فیکتریاںاور لاکھوں کارخانے بن چکے ہیں اور پاکستان بیرونی دنیا میں مال بیچ رہا ہے موٹر ویز اور سڑکوں کے جال بچھ چکے ہیں سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہے پاکستانی فوج دنیا کے لئے مثالی بن چکی ہے اور سب سے زیادہ یہ کہ پاکستان جوہری طاقت بن کر ن ایک ناقابل تسخیر ملک بن چکا ہے۔ ایسے لوازمات جو کہ صرف امارت کی علامت ہوتے تھے آج عام پاکستانی کی دسترس میں بھی آچکے ہیں ہیں ۔ پاکستان بہت ترقی کر چکا ہے یہ کہتے ہوئے بابا برکت نے اچانک اپنی لاٹھی ایک طرف رکھتے لمبی سانس لی اورپھر رنجیدہ آوازمیں بولے لیکن ۔۔لیکن یہ وہ پاکستان تو نہیںہے جس کے لئے ہم نے عظیم رہنما قائد اعظمؒ کے ساتھ مل کر جدو جہد کی تھی۔ قائد اعظم ؒ ہمیں مکمل پاکستان دے کر گئے تھے مگر ہم نے اپنی لا پروائی اور ذاتی مفادات کی خاطر اسے تقسیم کر دیا اور اس کا نتیجہ یہ کہ بنگلہ دیش معرض وجود میں آگیا ۔بابا جی نے روتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی شہ رگ قرار پانے والے کشمیر کو آزاد کروانا تو درکنار ہم نے بھارت کے ہاتھوں مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ہی تبدیل کروا ڈالی اور مظلوم کشمیریوں کے لیے کچھ نہیںکر سکے قیام پاکستان کے بعد تو ہم بعض ترقی یافتہ ممالک کو قرض جاری کرتے رہے لیکن آج سیاستدانوں اور اشرافیہ کے ٹھاٹھ باٹھ کی قیمت چکانے کے چکر میں مسلسل کئی دہایئوں سے کبھی نہ ختم ہونے والے قرضوں کے بوجھ تلے دب چکے ہیں ۔ ہر سال کروڑوں کیوسک قیمتی بارشی پانی سینکڑوں قیمتی انسانی جانوں اور مویشی و املاک کو نقصان پہنچانے کے بعد سمندر کی نذر کر دیا جاتا ہے اس کے لئے کوئی حل نہیں نکال سکے جبکہ اس کے مقابلہ میں بھارت سینکڑوں ڈیم تعمیر کر چکا ہے اور ہمیں لوڈ شیڈنگ کھائے جا رہی ہے ملک بھر میں سکولوں کالجوں کے جال کے باوجود 2.6 ملین بچے تعلیم سے محروم ہیں ملکی سیاست چند گھرانوں کی لونڈی بن چکی ہے۔ انصاف کی فراہمی میں ہم دنیا کے127نمبر پر اور کرپشن میں پہلے درجوں کے ممالک میںسر فہرست ہیں۔ بیٹا آزادی تو ہمیں مل گئی حقیقی آزادی سے ہم کوسوں دور ہیں وجہ یہ کہ ہمارے وقت میں صرف دو دشمن ہندو اور انگریز تھے اب پاکستان کے درجنوںدشمن بن چکے ہیں۔ بیٹا اس میںکسی دشمن کا قصور کم اپنوں کا زیادہ ہے ۔جو غیر ملکیوں کا آلہ کار بن کر اپنے ہی نشمن پر بجلیاں گرا رہے ہیں۔ قوم حقیقی رہنما سے ابھی تک محروم ہے۔ یہ میرا وہ پاکستان نہیں جس کا خواب قائد نے دیکھا تھا۔ بابابرکت ہچکیوں کے ساتھ رو رہے تھے اور میں نے دلاسا دینے کے لئے بابا جی کی جانب ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اچانک مجھے ایک جھٹکا لگا۔ میں بینچ پر اکیلا بیٹھا تھا اور میرے ہاتھ میںتحریک ا ٓزادی پر لکھی گئی ایک کتاب کا باب’’ آزادی‘‘ کے صفحات کھلے ہوئے تھے۔