بطور وزیراعظم، اسباب ناکامیٔ کپتان

سابق وزیراعظم عمران خان کو ’’دوست‘‘ بھی لے ڈوبے اور آغاز بھی پنجاب سے ہوا۔ جب بھی پنجاب کے حوالے سے کوئی اعتراض سامنے آتا تو سابق وزیراعظم عمران خان سردار عثمان بزدار کے تحفظ میں فرنٹ فٹ پر آ کر انہیں وسیم اکرم پلس قرار دیتے اور سنی ان سنی کر دیتے۔ انہوں نے دوران حکومت پنجاب کے حوالے سے مکمل طور پر آنکھیں بند کئے رکھیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں وہ تمام آفیسر براجمان ہوگئے جو سابق وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کے انتہائی بااعتماد اور قریبی تعلق رکھنے والے تھے۔ ان میں سے تین کے بارے میں تو کہا جاتا تھا کہ وہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی خواب گاہ تک رسائی رکھتے تھے اور کسی بھی وقت انہیں مل سکتے تھے پھر انہی کی رسائی سردار عثمان بزدار کے اندرونی سرکل میں ہو گئی۔ ان بیوروکریٹس نے میاں شہباز شریف کے قریبی لوگوں سے بھی رابطے رکھے اور سردارعثمان بزدار کو بھی اپنے حصار میں مقید رکھا۔ 
پنجاب کے ایک ترقیاتی محکمے کے ٹھیکیداروں نے 11کروڑ کی جعلی ادائیگی کے بل بنوا لئے مگر جس آفیسر سے ان کی ڈیل تھی وہ بیمار ہو کر طویل رخصت پر چلا گیا اور اس کی جگہ آنے والے آفیسر نے بل کلیئر کرنے سے انکار کردیا۔ مذکورہ ٹھیکیدار ڈیڑھ سو کلومیٹر کا سفر طے کر کے گوجرانوالہ گئے اور عمران خان کا اقتدار جاتے ہی بیرون ملک جانے والی فرح گجر سے "معاملات" طے ہوئے اور ان ٹھیکیداروں نے اپنی پسند کا آفیسر لگوا کر دس ہی دن میں 11 کروڑ کی ادائیگی کروا لی۔بتایا جاتا ہے کہ تمام ٹھیکیداروں کو صرف 50 لاکھ خرچ کرنے پڑے تھے۔
ملتان ڈویژن کے ایک ضلع میں تعینات ایک ڈپٹی کمشنر نے جنوبی پنجاب کے چند اضلاع میں انتظامی افسران کی تعیناتی کی ذمہ داریاں سنبھال رکھی تھیں کیونکہ انہوں نے سسرالی رشتے دار شیشے میں اتار رکھے تھے۔ وہ سہ ماہی بنیادوں پر ضلعی افسران کی تعیناتیاں کراتے تھے۔ کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ جونہی عمران خان کی حکومت ختم کی گئی ان کے سب سے بااعتماد وزیر اور پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے کرتا دھرتا مخدوم خسروبختیار پشاور سے فلائٹ پکڑ کر سیدھا لندن پہنچے اور پھر وہیں ڈیرے لگا لئے کہ وہ اقتدار پارٹی کے سیاستدان تھے انہیں پی ٹی آئی سے کیا لینا دینا۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں جس طرح آئیل مافیا نے لوٹ مار کی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
 کیا یہ سچ نہیں کہ ایک آئل کمپنی نے ندیم بابر نامی اپنے بااعتماد کارندے کو وزارت پٹرولیم کے لئے ایڈوائزری دلوائی جس نے عوام کو تو لوٹا ہی لوٹا پاکستانی بنکوں کو بھی 54 ارب روپے کا نقصان کرا دیا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ آج سے دو سال قبل کرونا کے عروج کے دنوں میں 2020ء میں دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں صفر سے بھی نیچے چلی گئی تھیں مگر آئل کمپنیوں اور اوگرا کے اس گھنائونے کارٹیل نے پاکستان میں تیل کی قیمتیں کم نہ ہونے دیں بلکہ ان ہی دنوں میں پٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ پر پابندی لگوا دی گئی اور مفت کا تیل بھی حاصل نہ کیا گیا۔ اس سے بڑھ کر قوم سے اور کیا کھلواڑ ہو سکتا ہے؟ 
کیا یہ درست نہیں کہ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ آئل کمپنیاں تقریباً مفت تیل کے علاوہ جہازوں کا کرایہ بھی آفر کرتی تھیں مگر ان دنوں میں بھی تیل نہ تو امپورٹ کیا گیا اور نہ ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کی گئیں۔ کیا اس طرح عوام سے کھربوں لوٹا نہیں گیا؟ 
کیا یہ حقیقت نہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کا عالمی معیار یہ ہے کہ اس کا سٹینڈرڈ 92 رون سے کم نہ ہو۔ رون پٹرولیم منصوعات کی کوالٹی کا پیمانہ ہے مگر پاکستان میں آپ کے دور حکومت میں 62 رون کا انتہائی غیر معیاری پٹرول ملک بھر میں سپلائی کیا جاتا رہا جس سے سردیوں کے آغاز ہی میں پہلے سے جاری آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ 
آخر ایسی بھی کیا مجبوری تھی کہ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے چیئرمین کو آپ نے تجربہ نہ ہونے کے باوجود ایڈوائزر رکھ لیا اور وہ بھی پٹرولیم مصنوعات پر ہاتھ صاف کرکے اپنی سات نسلیں سنوار گئے۔
کیا یہ درست نہیں کہ آپ کی حکومت کے اہم وزراء اور طاقت ور لوگوں نے علاقے اور محکمے آپس میں بانٹ رکھے تھے۔ کیا یہ درست نہیں کہ ملتان میں آپ ہی کے ایک بااثر بااعتماد بااختیار اور ’’بااصول‘‘ ساتھی کے بیٹے نے محکمہ خوراک شیخ مظہر عباس نامی ایک نوجوان کو "ٹھیکے" پر دے رکھا تھا۔
 محکمہ خوراک میں کوئی بھی سرکاری عہدہ نہ رکھنے کے باوجود اسے سبسڈائز آٹے کے 1500 تھیلے روزانہ کیوں اور کس حیثیت میں ملتے تھے جس سے وہ ساڑھے تین سال تک تقریباً 4 لاکھ 75 ہزار روزانہ کماتا رہا۔ شیخ مظہر عباس کے حوالے سے انٹیلی جنس رپورٹس بھی اعلیٰ حکام تک گئیں مگر یہ کام نہ رک سکا اور چند ہی دنوں کے وقفے سے پنجاب میں آپ کی حکومت بنتے ہی اب دوبارہ شروع ہو چکا ہے البتہ اس نے دفتر کے سامنے بورڈ پر اپنی تصویر کے ساتھ دوسری تصویر بدل دی ہے کہ بدنامی بہت ہو رہی تھی۔ ویسے بھی شیخ مظہر عباس کے سہولت کاروں کو مال مفت اور بخشیش جمع کرنے کا بہت پرانا تجربہ ہے۔ 
کیا شیخ مظہر کی اتنی حیثیت ہے کہ وہ اتنی بڑی رقم روزانہ اکیلا کھا سکے۔ کیا آپ کے دور حکومت میں ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی مکمل طور پر ٹھیکیداری نظام کے تحت نہیں چلتی رہی اور کیا یہ درست ہے کہ پنجاب میں دوبارہ آپ کی حکومت قائم ہوتے ہی ڈیرہ غازی خان کے محکمہ اینٹی کرپشن میں کرپشن کے وہ تمام تر مقدمات عجلت میں ختم کئے جا رہے ہیں جو کہ ایک سابق پولیس آفیسر نے دن رات محنت کر کے ریکارڈ جمع کیا اور میرٹ پر تفتیش کے بعد درج کئے تھے۔
کیا یہ سچ نہیں کہ آپ کے دور حکومت میں ایک صوبے کے ایک بااختیار نے پہلے ہی دو سالوں میں اتنی رقم جمع کر رکھی ہے کہ دو سال کے اقتدار کے بعد ہی انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب کسی سے پیسے نہیں لینے، بس سونا لینا ہے اور پھر سونا ہی جمع کیا جاتا رہا کہ دوردراز کے علاقوں میں اس کا چھپانا اور مٹی میں دفن کرنا آسان ہے۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ محمد بن قاسم نے جنوبی پنجاب کے صدر مقام ملتان کو دارالذھب یعنی "سونے کا گھر" قرار دیا تھا۔ سونے سے اس خطے کے لوگوں کو پرانی محبت ہے کہ اس سے خواتین بھی راضی رہتی ہیں، بوقت ضرورت کام بھی آ جاتا ہے اور سالہا سال میں مٹی بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑتی۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن