ایک وقت تھا کہ راجہ محمد اکرم بری امام کے روحِ رواں ہوا کرتے تھے. پتہ نہیں کہ ان کی شخصیت میں کیا کرشماتی سحر تھا کہ بڑے بڑے نامی گرامی صحافی، دانشور، بیوروکریٹ، تاجر، سیاست دان، ریٹائرڈ جرنیل اور ڈپلومیٹ انکی طرف کھینچے چلے آتے تھے. ہر سال بری امام کے عرس کی تقریبات کے اختتام پر ایک خاص محفل منعقد ہوتی جس میں ملک کے نامی گرامی دانشور اپنے خیالات، نظریات اور تجربات سے حاضرین کو نوازنے کا سبب بنتے. 1997 میں مجھے بری امام کے عرس کے آخری دن کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا.
بہت سے اور لوگوں کی طرح میں بھی جنرل حمید گل کا بہت بڑے مداح تھا. بطور جنرل، سابقہ ڈی جی آئی ایس آئی اور دانشور ا?ن کی ملکی اور بین الاقوامی معاملات پر بڑی گہری نظر تھی. کشمیر اور افغانستان سے جڑے ہوئے مسائل کے ہر پہلو سے باخبر تھے اور افغان مجاہدین پر اپنا ذاتی اثر و رسوخ رکھتے تھے. جب منتظمین نے تقریب میں ا?ن کو اظہارِ خیال کی دعوت دی تو انہوں نے پاکستان، کشمیر اور افغانستان کے مسائل پر بہت کھل کر باتیں کیں. انہوں نے اپنی تقریر میں کشمیر کی آزادی کیلئے چلائی جانے والی تحریک اور کشمیری مجاہدین کی قربانیوں کو سراہا اور کشمیر کی آزادی کے لئے اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا. ساتھ ساتھ انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ روا رکھی جانے والی اپنی دیرینہ منافقانہ پالیسی کی وجہ سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچانے کے جتن کرے گا. بھارت کے کہنے پر پاکستان پر دباؤ بڑھا کر حرکت الانصار، حرکت المجاہدین اور دوسری کشمیری حریت پسند تنظیموں پر پابندی لگوانے کی کوشش کرے گا تاکہ تحریک دب سکے.
انہوں نے بھارت اسرائیل شاطرانہ گٹھ جوڑ سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اسرائیل کی طرح سرحد پر باڑ لگانے کی بھی کوشش کریگا. بھارت کو اس امر سے باز رکھنے کیلئے پاکستان کی حکومت اور فوج کو بہت باخبر ہونا پڑے گا. انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کی حکومت اپنی تمام تر اخلاقی، حکومتی اور سفارتی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ان تمام سازشوں کا مقابلہ کرے تاکہ کشمیر کاز کو کسی قسم کی کوئی گزند نہ پہنچ سکے. افغانستان کے بارے میں جنرل حمید گل نے کہا کہ امریکہ یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں امن ہو اور وہاں کوئی مستحکم اور پائیدار حکومت قائم ہو. وہ افغان مجاہدین کو باہم لڑانے کی سازشوں پر کاربند رہے گا تاکہ یہ آپس میں لڑ کر کمزور تر ہوتے چلے جائیں.آخر میں سابقہ نگران وزیراعظم ملک معراج خالد کو دعوتِ خطاب دی گئی. ملک معراج خالد 6 اکتوبر 1996 سے 17 فروری 1997 تک پاکستان کے نگران وزیراعظم رہے تھے. وہ ملکی اور بین الاقوامی حالات سے مکمل طور پر باخبر تھے. وہ نہایت اعلیٰ درجے کے دیانتدار اور درویش منش انسان تھے. مارکسزم سے متاثر تھے اور اِسی چیز نے ان کو پاکستان پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرف مائل کیا۔
1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد دیانتدار لوگوں کے لئے الیکشن لڑنا مشکل ہی نہیں، قریباً ناممکن ہو چکا تھا. ملک صاحب بھی اِس قباحت کی زد میں آئے. ان کی پارٹی نے ان کو یہ کہہ کر ٹکٹ دینے سے معذرت کر لی کہ ن کے پاس الیکشن لڑنے اور پارٹی فنڈ عطیہ کرنے کیلئے کثیر سرمایہ تو کجا، کوئی پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی. اِس پاداش میں وہ پارٹی ٹکٹ کے لئے "نااہل" قرار پائے۔
ملک صاحب نے انتہائی دھیمے لہجے میں اپنی تقریر شروع کی. انہوں نے دکھی دل کے ساتھ شرکائے تقریب کو بتایا کہ "بحیثیت پاکستانی قوم، ہماری بین الاقوامی برادری میں کوئی اہمیت اور عزت و توقیر نہیں ہے. ہم اپنا وقار اور مقام کھو چکے ہیں. بطور قوم ہم اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھانے میں یکسر ناکام ہو چکے ہیں. جس کی وجہ سے بین الاقوامی برادری نہ تو ہمارے موقف کو سنجیدگی سے لیتی ہے اور نہ ہی ہم پر اعتبار کرنے کیلئے تیار ہے". انہوں نے مزید کہا، "ہم نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے اجلاس میں اٹھایا. اقوامِ عالم کو بتایا کہ بھارت کس طرح کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، ان کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے کا مرتکب ہو رہا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں استصواب کرانے سے بھی انکاری ہے. ہم نے اقوامِ عالم کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے کی اپیل کو ایک بار پھر دہرایا".
ملک معراج خالد نے انتہائی افسردگی کے عالم میں بتایا کہ ہمارے موقف کو قطعی طور پر سنجیدگی سے نہیں لیا گیا. اس کے برعکس اِسی اجلاس میں ایک چھوٹے سے ملک 'قبرص' کے مندوب نے یہ پیشکش کرکے اقوامِ عالم کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لی کہ بھارت اور پاکستان اگر چاہیں تو وہ ثالثی کرکے مسئلہ کشمیر کو حل کروا سکتے ہیں". ملک معراج خالد کہتے ہیں، "قبرص نے یہ تجویز مسئلہ کشمیر پر پوری تیاری اور سنجیدگی کے ساتھ دی تھی. اِس چھوٹے سے ملک کی بڑی پیشکش کو بین الاقوامی برادری نے نہ صرف غور سے سنا بلکہ سنجیدگی سے بھی لیا".
ایک اور بات جو انہوں نے دکھی لہجے میں کہی وہ ہمیشہ کیلئے میرے ذہن کی ہر تہہ پر نقش ہو گئی. انہوں نے فرمایا، "ہم بحیثیت قوم اندر سے ڈھے چکے ہیں". انکے ایک لفظ "ڈھے" نے 1997 تک کے پاکستانی قوم کے تمام نام نہاد معماروں کی قابلیت کے سارے پول کھول کر رکھ دئیے… قوموں کی تشکیل نو میں عملی کردار قیادت کی قابلیت، ذہانت، قوت ارادی، جذبے، ولولے اور قوت فیصلہ پر ہوتا ہے کہ وہ قوم کو کس ڈھب پر تیار کرنا چاہتی ہے. چین، اسرائیل، جاپان، جنوبی کوریا اور سنگاپور پاکستان کے بعد آزاد ہوئے ان ممالک کے راہنماؤں نے اپنے اپنے ملک میں کتنی اعلیٰ درجے کی قومیں تیار کیں اور پوری دنیا میں خود کو منوایا.
جنرل حمید گل نے کشمیر اور افغانستان کے حوالے سے اپنے جن خدشات کا اظہار کیا تھا. وہ سو فیصد درست ثابت ہوئے۔کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل گیا. افغانستان مسلسل حالتِ جنگ اور سازشوں میں گھرا ہوا ہے …. ملک معراج خالد نے پاکستانی قوم کی جو زبوں حالی بیان کی تھی، وہ بہتر ہونے کی بجائے سبک رفتاری سے مزید تنزلی کا شکار ہوتی ہوئی اب آخری مرحلے میں داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ صد حیف کہ عسکری معاملات میں جنرل حمید گل کی دانش اور قوم کی زوال پذیری پر ملک معراج خالد کا تفکر کہیں بھی نظر نہیں آ رہا. یہ امر ہمارے لئے ایک بہت بڑی آزمائش ہونے کے ساتھ ساتھ لمحہ فکریہ بھی ہے۔