ٹی ٹاک …طلعت عباس خان
ایڈووکیٹ سپریم کورٹ
takhan_column@hotmail.com
دس اگست کو سپریم کورٹ بارکی سابق ایڈیشنل سیکریٹری سپریم کورٹ شیریں عمران ایڈووکیٹ نے کہا چلیں ایف ایس ٹی میں آج صبح گیارہ بجے چئیرمین جسٹس روح الامین کے اعزاز میں بار روم میں ایک تقریب ہے جس میں تمام ممبرز بھی ہونگے۔ سوچا چلو اسی بہانے سب سے ملاقات اور بات بھی ہو جائے گی۔ جاتے ہوئے سپریم کورٹ بار کے دو معزز رکن جناب انوا الحق رامے اور عمران فضل صدیقی میڈم شیریں کی مدعیت میں ہم فیڈرل سروس ٹریبونل پہنچے تو گاڑی پارک کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر کمال امارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میڈم نے کار پارک کی۔ پہنچ کر محترمہ مزیبح شریف سردار نصیر نے بتایا کہ پروگرام گیارہ بجکر تیس منٹ پر شروع ہوگا۔میڈم مزبح شریف کی خلوص بھری باتیں سننے اور دوستوں سے ملنے ملانے میں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔ بار کا ہال بھر چکا تھا مگر مہمان مقررہ وقت سے دیر سے تشریف لائے۔وکلا کی تعداد زیادہ تھی جگہ کم تھی۔یہ ایسا اسلئے نہیں تھا کہ زیادہ وکلا اب سروس میٹر کرنے لگ پڑے ہیں۔بلکہ یہ رش اس لئے تھا بار الیکشنوں کا موسم شروع ہو چکا ہے۔ بار لیڈران بھی اپنے اپنے ساتھی احباب کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ ایک امیدوار نے سپورٹ اور ووٹ کا کہا جواب میں عرض کی پیارے اپنے سینئیر جج صاحب کا خیال کرو ۔اپ الیکشن میں نہ آؤ جب تک اپ کے سینیر جج ہیں۔ ورنہ امیدوار بننے پر آپ کے سیئنیر جج پر انگلیاں اٹھیں گیں۔ یہ جج صاحب میرے چھوٹے بھائی ہیں۔اب دیکھتے ہیں وہ مفت مشورے سے مستفید ہونا پسند کرتیہیں یا نہیں…!! میرا ذاتی خیال ہے کہ جج کے چیمبر کے وکیل کو خود ہی الیکشن نہیں لڑنا چاہیے۔ کیونکہ اگر الیکشن لڑے اور جیتے یا ہارے ایسا کرنے سے انگلی جج پر ہی اٹھے گی۔جناب مرضی کے مالک ہیں۔ہم نے تجربات کی روشنی میں مشورہ دیا ہے۔اس روز ایف ایس ٹی میں پرانے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی۔ جاننے والے کچھ بدلے بدلے لگے جس کا انہوں نے عملی مظارہ بھی کیا۔ ورنہ وہاں پر ایسے وکلا بھی موجود تھے جنھوں نے سروس میٹر کے مقدمات میں شہرت پا رکھی تھی مگر انہیں بھی بولنے کا موقع نہ دیا ۔ شاید اس لئے کہ جنھوں نے چندہ نہ دیا تھا بولنے بھی نہ دیا ۔ جبکہ سپریم کورٹ بار کے موجودہ ایڈیشنل سیکرٹری ملک شکیل اعوان سابق تین بار ایڈیشنل سیکرٹری بننے والے اسلم گھمن سابق صدر اسلام آباد بار نزیر بھٹہ اور سینئیر وکیل بھٹی صاحب بھی موجود تھے انہیں چندہ اکھٹا کرنے کی لسٹ دے رکھی تھی انہیں بھی کچھ کہنے کا موقع نہیں ملا نہ ان کا نام لینا گوارہ نہ کیا۔ شروع میں بتاتے رہے کہ بار نے ان کے اعزاز میں یہ پروگرام کیا ہے جبکہ یہاں تو بار کا وجود ہی نہیں تھا ۔پھر انہیں کسی نے احساس دلایا تو کہا کہ یہاں بار کا وجود نہیں ہے۔ سب کی خواہش ہے اسے بار بنانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔یہ پروگرام چندہ شیرنگ فارمولے کے تحت تھا لہذا کہا جاتا ہے جس نے زیادہ شیئرکیا اسے بولنے دیا کچھ نے کہا یہ استاد شاگردوں کا پروگرام تھا جو چندے سے ہوا۔ پروگرام اچھا تھا۔میرے لئے سوائے چیرمین صاحب کے تمام ممبران کے چہرے اجنبی تھے۔ اچھا ہوتا اگر ممبران کا بھی تعارف کرادیا جاتا ۔ اس موقع پر ڈائس تو تھا مگر مائک اور سپیکر نہ تھے۔ چیرمین صاحب نے جب وکلا سے خطاب شروع کیا تو اس وقت تصویر تھی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ مجبور ہو کر کہا سر تصویر آ رہی ہے آواز نہیں ۔ جس پر ایک ممبر صاحب نے کہا پنکھوں کو بند کر دیا جائے تو آواز آ جائے گی۔ پھر پنکھے بند ہونے اور چیرمین صاحب نے بھی ذرا اپنی آواز میں اضافہ کیا تو پھر کچھ سنائی دینے لگا۔ چئیرمین نے بطور وکیل بھرپور بار کی سیاست میں وقت گزاراتھا کہا جاتا ہے جناب دوبار ممبر سپریم کورٹ بار اور ممبر پاکستان بار کونسل رہ چکے ہیں ۔ پشاور ہائی کورٹ کے جج رہے اور اب تین سال کے لیے سروس ٹریبونل کے چیرمین رہیں گے۔ اگر چیرمین کے بجائے چیف جسٹس اور ممبران کو جج لکھا جاتا تو زیادہ اچھا ہوتا۔ اکثر ممبر کام کرتے اور فیصلہ لکھتے ہوئے بعض یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی اہم کام نہیں جو ہم کر رہیہیں جبکہ ان کا کام اور لکھنا جج کی حثیت سے ہے ان کا سٹیٹس ہائی کورٹ کے جج جیسا ہی ہے۔ اس فورم کے تمام فیصلے سپریم کورٹ میں چیلنچ ہوتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے آخرت میں تمام ان کے ک? گ? فیصلوں کا بھی حساب ہو گا اور بے حساب ہو گا۔ کہا جاتا ہے یہاں کیکچھ ممبر اپنی اس جاب کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ اپنی عمر اور سٹیٹس کا خیال بھی نہیں کرتے جیسے ماضی میں ایک ممبر کو سب دیکھ چکے ہیں۔ جن کے قصے آج بھی مشہور ہیں اپنے برے کاموں کو چھپانے کے لیے باریش کا سہارا لیتے رہے مگر جونئیر سٹاف خاتون کو تنگ کرنے سے باز نہ آئے پھر ان کے خلاف اس بچاری نے کیس چلایا اور انہیں اس کیس میں سزا ہونی۔ اس سزا کے خلاف ہائی کورٹ کی چھتری کے نیچیے چھپ کر ٹربیونل کا وقت پورا کرنے میں کامیاب ہونے۔ یہاں تو یہ قانون سے بچ گئے مگر دوسری دنیا میں یہ ضرور پکڑے جانیں گے۔ اکثر ممبر اس کو عدالت اور اپنے آپ کو جج نہیں سمجھتے۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔ ان ممبران اور چیرمین کی وہی زمہ داریاں ہیں جو ہائی کورٹ کے جج صاحبان کی ہیں۔ راقم تین سال تک بطور لا افسر کے چیرمین جسٹس سید زاہد حسین صاحب کے ساتھ کام کیا اس دوران چھ ہزار کیس ڈسپوز اف ہوئے ۔ یاد رہے فائلیں انکے پیپرز خود بولتے ہیں۔ یوں تو لا افسر کا کام حکومتی محکمے کا دفاع کرنا ہوتا ہے لیکن بعض اوقات جب جہاں دیکھا کسی مظلوم کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اس کے حق میں آواز بلند کی۔ جس پر چیئرمین صاحب سے ہمیشہ داد بھی ملی۔ ایسا اس لئے کرتا تھا کہ مجھے یقین تھا کہ میرا بھی حساب ہوگا اور بے حساب ہو گا۔ اگر مجھے بھی اس تقریب میں بات کرنے کا موقع ملتا تو چیرمین اور ممبران سے گزارش کرتا کہ کیس سنے وقت کان ہاتھی جیسے اور زبان چڑیا جیسی رکھنے کی اشد ضروت ہے۔اگر کسی وکیل سے جھگڑا ہو بھی جائے تو اس میں کیس کو خراب نہ کیا جائے درخواست کندہ کو نقصان نہ پہنچایاجائے۔ قانون کے مطابق فیصلہ کریں۔ اس وقت آپ سمجھا کریں کہ اپ امتحان کی کرسی پر ہیں جس کا حساب ہو گا اور بے حساب ہو گا۔ لگتا ہے ہر سرکاری ملازم گھر سے سوچ کر نکلتا ہے کہ اج میں نے کس کی دم پر پاؤں رکھنا ہے۔ انہیں یہ احساس نہیں کہ جو کام میرا کرنے کا ہے اس کو احسن طریقے سے کروں ایسا کرنا ہماری زمہ داری ہے۔ کسی دوسرے کے کام کو مشکل نہ بنائیں کیونکہ سب سے بڑی عبادت انسان اور اپنے کام سے پیار کرنے کو کہا گیا ہے۔ایک عابد نے خدا کے دیدار اور ملاقات کے لیے 40 دن کا چلہ کیا ۔ دن کو روزہ اور رات کو قیام کرتا تھا۔ اعتکاف کی وجہ سے خدا کی مخلوق سے یکسرجدا تھا اور اسکا سارا وقت آہ و زاری اور راز و نیاز میں گذرتا تھا ۔ 36 ویں رات عابد نے ایک آواز سنی : شام کو تانبے کے بازار میں فلاں تانبہ ساز کی دکان پر جاؤ اوراپنی مراد پا لوگے۔ عابد وقت مقررہ سے پہلے پہنچ گیا اور مارکیٹ کی گلیوں میں تانبہ ساز کی اس دوکان کو ڈھونڈنے لگا ۔ ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو تانبے کی دیگچی پکڑے ہوئے تھی اور اسے ہر تانبہ ساز کو دکھارہی تھی۔ اسے وہ بیچنا چاہتی تھی, وہ جس تانبہ ساز کو دیگچی دکھاتی وہ اسے تول کر کہتا 4 ریال کی ہے ? بڑھیا کہتی 6 ریال میں بیچوں گی کوئی تانبہ ساز اسے 4 ریال سے زیادہ دینے کو تیار نہ تھا۔ آخر کار وہ بڑھیا ایک ایسے تانبہ ساز کے پاس پہنچی جو اپنے کام میں مصروف تھا بڑھیا نے کہا: میں یہ برتن بیچنے کے لیے لائی ہوں اور اسے 6 ریال میں بیچوں گی؟ کیا آپ 6 ریال دیں گے؟ تانبہ ساز نے پوچھا صرف 6 ریال میں کیوں؟ بڑھیا نے دل کی بات بتاتے ہوئے کہا: میرا بیٹا بیمار ہے، حکیم نے اسکے لیے نسخہ لکھا ہے جس کی قیمت 6 ریال ہے۔تانبہ ساز نے دیگچی لے کر کہا: ماں جی یہ دیگچی بہت عمدہ اور قیمتی ہے اگر آپ بیچنا ہی چاہتی ہیں تو میں اسے 30 ریال میں خریدوں گا۔ بوڑھی نے کہا: کیا تم میرا مذاق اڑا رہے ہو۔کہا ہرگز نہیں،"میں واقعی 30 ریال دوں گا یہ کہہ کر اس نے برتن لیا اوربوڑھی کے ہاتھ میں 30 ریال رکھ دیئے !!! بوڑھی بہت حیران ہوئی اور دعا دیتی جلدی سے اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔عابد کہتا ہے میں یہ سارا ماجرہ دیکھ رہا تھا جب وہ بڑھیا چلی گئی تو میں نے تانبے کی دوکان والے سے کہا: چچا، لگتا ہے آپکو کاروبار نہیں آتا؟ بازار میں کم و بیش سبھی تانبے والے اس دیگچی کو تولتے تھے اور 4 ریال سے زیادہ کسی نے اسکی قیمت نہیں لگائی۔ اور آپ نے 30 ریال میں اسے خریدا.بوڑھے تانبہ ساز نے کہا: میں نے برتن نہیں خریدا، میں نے بچے کا نسخہ خریدنے کے لیے اسے پیسے دئیے ہیں, میں نے ایک ہفتے تک اسکے بیمار بچے کی دیکھ بھال کے لئے پیسے دئیے ہیں۔ میں نے اسے اس لئے یہ قیمت دی کہ گھر کا باقی سامان بیچنے کی نوبت اسے نہ آئے۔ عابد کہتا ہے میں سوچتا اور اسکو دیکھتا رہ گیا. اتنے میں غیبی آواز آئی چلہ کشی سے کوئی میری زیارت کا شرف حاصل نہیں کرسکتا ۔ گرنے والے کوتھامو اور غریب بے سہارا کی مدد کرو میں خود تمہارے پاس چل کر آوں گا۔ ویسے بھی کہاجاتا ہے اے زندگی کا مقصد اوروں کے کام انا لکھ رکھا ہے۔
( اللہ کریم حکایت شیخ سعدیؒپر ہمیں بھی عمل کی توفیق دے آمین )