راج دھانی سرفراز راجا
وہ بارہ قدم بھاگا ،جی ہاں صرف بارہ قدم اور پھر تاریخ بدل دی۔ ایک سو دس کلومیٹر کی رفتار سے پھینکے گئے نیزے نے دنیا کی تاریخ کے سب سے پرانے اور سب سے بڑے کھیلوں کے مقابلے کی ایک سو اٹھارہ سالہ تاریخ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ایک بار دنیا کے ایک بڑے مصور سے کسی خاتون مداح نے آٹو گراف مانگا مصور نے کھڑے کھڑے کاغذ پر ایک تصویر بناکر اس خاتون کو دیدی اور جاتے ہوئے بولا کہ اس تصویر کو تیس لاکھ سے کم میں کسی کو نہ دینا۔ خاتون یہ سن کر حیران ہوگئی وہ ایک آرٹ گیلری میں گئی اور تصویر دکھائی تو آرٹ گیلری کے مالک نے فوری اسے تیس لاکھ کی آفر دیدی۔ خاتون وہاں سے نکلی اور واپس اسی مصور کے پاس پہنچ گئی بولی یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ نے محض تیس سیکنڈز میں ایک تصویر بنائی اور اس کی تیس لاکھ قیمت لگ گئی۔ تو مصور بولا یہ تصویر تیس سیکنڈز میں نہیں بلکہ تیس سال میں بنی ہے۔ تمہارے سامنے وہی تیس سیکنڈز ہیں جو تم نے دیکھے لیکن اس کے پیچھے جو تیس سال کی مشکل ترین جدوجہد ہے وہ تم نہیں جانتی، ارشد ندیم نے جو بارہ قدم پیرس کے اس بھرے سٹیڈیم میں دوڑے دنیا بھر نے دیکھے لیکن ان بارہ قدموں کے پیچھے جو بارہ سال کی جدوجہد تھی وہ کوئی نہیں جانتا ،ان بارہ قدموں کا ہر قدم سالوں پر محیط ہے صرف وہی جانتا ہے کہ میاں چنوں کے چھوٹے سے گاوں سے پھٹے جوتوں کیساتھ پہلا قدم لینا کتنا مشکل تھا جس نے اپنا ڈیبیو اپنے والد کیساتھ مزدوری کرتے ہوئے ایک اینٹ کو نیچے سے اوپر کی منزل پرپھینک کرکیا، بارہ سال پہلے 2012 کی بات ہے پنجاب حکومت نے ایک یوتھ سپورٹس فیسٹیول کرایا۔ جو ارشد ندیم کے کھیل کا باضابطہ ڈیبیو بنا۔ اس کے بعد ارشد رکا نہ اس کی مشکلات، نیزہ بازی میں بڑی کامیابیوں کی باوجود وہ توجہ حاصل نہ کرپایا۔ لوگوں نے حوصلہ شکنی کی مزاق اڑایا۔ کھیل کیساتھ معاشی ذمہ داریوں سے لڑنا آسان تو ہرگز نہ تھا۔ لیکن وہ رکا نہیں ،زنگ آلود سامان کیساتھ کھلے آسمان تلے ٹریننگ جاری رکھی۔ غیر معیاری اور پرانے نیزے کے استعمال نے بازو کو اندرونی زخم دے ڈالے اور کہنی کی سرجری کرانا پڑی تو حبس زدہ گرم اور ناموافق موسم میں بنا سہولیات ٹریننگ نے بھی مسائل پیدا کئے اور گھنٹے کی سرجری سے گزرنا پڑا لیکن اس کی ہمت ان مشکلات سے زیادہ بڑی تھی۔ کہتے ہیں کامیابی کی کئی باپ ہوتے ہیں اور ناکامی یتیم۔ اولمپکس کی کامیابی کے بعد تو کریڈٹ لینے والے کئی سامنے آرہے ہیں لیکن زیادہ دور نہ جائیں چند ماہ پہلے تک ارشد کے پاس ٹریننگ کیلئے عالمی معیار کا نیزہ موجود نہ تھا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اپنے اس اکلوتے عالمی معیار کے کھلاڑی کیلئے بغیر مانگے نیزوں کی لائن لگ جاتی لیکن اسے میڈیا کی ذریعے اپیلیں کرنا پڑیں۔بیرون ملک تربیت کی سہولت کیلئے بھی کتنوں کو درخواست کرنا پڑی اور اولمپکس سے دو ہفتے قبل فرانس میں ایک مقابلے میں شرکت کے بعد جب کہا گیا کہ دو ہفتے کیلئے یہیں رہنے کا انتظام کردیا جائے تاکہ یہاں کے موسمی حالات میں ٹریننگ کی جاسکے اور آنے جانے کی سفری تھکاوٹ سے بھی بچا جاسکے۔ لیکن اسے چند دن وہاں اضافی قیام کی سہولت نہ مل سکی۔اولمپکس میں ارشد کی کامیابی کے بعد ایک بحث یہ بھی چھڑ چکی ہے کہ ہم آخر کیوں ایک کھیل کی قوم بن چکے ہیں تو بات صاف ہے جب ایک کھیل میں کھلاڑیوں کو بے حساب پیسہ اور پہچان ملے گی تو کوئی چاہتے ہوئے بھی دوسرا کھیل کیوں کھیلے گا ہم کرکٹ کو اتنا اوپر لے جاچکے ہیں کہ وہ دوسرے کھیلوں کو نگل گیا ہے۔ ارشد کا شکریہ کہ اس نے ہمیں بتایا کہ کرکٹ کے علاوہ کھیل اور بھی ہیں ،ورنہ ہم نے تمام تر پیسہ اور توجہ اس کھیل کو دیدی ہے جو محض چند ہی ملکوں میں شوق سے دیکھا جاتا ہے جو کھیل اولمپکس جیسے عالمی مقابلے میں شامل ہی نہیں کیا جاتا ،ظاہر ہے اولمپکس میں بڑے کھیلوں کو شامل کیا جاتا ہے جو دنیا کے کم از کام چار براعظموں کے ستر سے زائد ملکوں میں کھیلے جاتے ہوں اور کرکٹ یہ اہلیت پوری نہیں کرتا نام تو روشن وہاں ہوتا ہے جہاں دو سو سے زائد ملکوں کے سامنے ملک کا پرچم سر بلند ہو اور لاکھوں لوگ آپکے قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہوں، یہ احساس ہمیں دہائیوں پہلے ہماری ہاکی تیم نے دلایا اور اب ارشد ندیم کا شکریہ جنہوں نے نسلوں کے اس خوبصورت خواب کو پھر حقیقت بنایا۔ لیکن ہماری یاداشت تو ہھی بہت محدود ہے ، ہم دوسرے کھیلوں کے کئی کھلاڑیوں کی کامیابیوں پر وقتی تالیاں بجا کر بھول چکے ہیں، ارشد ندیم کو پاکستان کا اب تک کا عظیم ترین کھلاڑی کہنا درست ہوگا وہ اگر کسی دوسرے ملک میں ہوتا تو اس پر فلمیں بنائی جاتیں کتابیں لکھی جاتیں اگر اسے بھی ہم بھلادیں گے تو پھر ہم بطور قوم خود بھی بھول جانے کے قابل ہوں گے تو دعا کی جاسکتی کہ ارشد ندیم کےپیرس میں 92.97 میٹر تک نیزہ پہچانے کے لئے اٹھنے والے بارہ قدم پاکستانی قوم کو تقسیم ختم کرکے متحد کرنے کی جانب پہلا قدم بن جائیں۔ یہ بارہ قدم ہمیں ایک کرکٹنگ نیشن سے سپورٹس نیشن بنانے کی جانب پہلا قدم بن جائیں اور یہ بارہ قدم ملک کے ان سیکڑوں ارشد ندیموں کیلئے بھی پہلا قدم بن جائیں جن کا ٹیلنٹ ہماری بےقدری کا شکار ہوکر کسی چھوٹے سے گاوں میں ہی دم توڑ دیتا ہے