اندر کی بات
شہباز اکمل جندران
یہ 5اگست کی ایک اداس صبح تھی۔
ڈھاکہ میں سورج ابھی پوری طرح طلوع نہیں ہواتھا۔ سات بج رہے تھے۔ سڑکوں پر کسی قسم کی گہما گہمی نہیں تھی۔ صرف اِکا دُکا کاریں اور موٹر سائیکلیں ہی اِدھر اُدھر آتی جاتی دکھائی دے رہی تھیں۔ ریلوے اسٹیشن پر موت کی سی خاموشی تھی۔ ٹرینیں آر ہی تھیں ، نہ جا رہی تھیں۔ سب کچھ ہی بہت غیر معمولی تھا۔ طلباءتحریک نے ہر چیز کو جام کر دیا تھا۔ ایئرپورٹ کی طرف جانے والی سڑک بھی سنسان پڑی تھی۔ کسی انہونے ”سانحہ“ کی خبر دے رہی تھی۔ تمام ملکی و غیر ملکی پروازیں معطل تھیں۔ انٹرنیٹ سروس بھی ملک میں بند کر دی گئی تھی۔ ایک ہیجان کا عالم تھا۔ دل کہہ رہا تھا ضرور کچھ ہونے والا ہے۔
حکومت کے خلاف تین ماہ قبل شروع ہونے والی طلباءتحریک نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ تحریک میں اب سول سوسائٹی کے لوگ بھی لاکھوں کی تعداد میں شامل ہو گئے تھے۔ ڈھاکہ کی سڑکوں، گلیوں اور بازاروں میں شیخ حسینہ کے خلاف نعرے لگ رہے تھے۔ نفرت کا ایسا لاوا تھا جو پورے بنگلہ دیش میں پھٹ چکا تھا۔ جس سے ہر شہر متاثر اور نظام زندگی معطل ہو کر رہ گیا تھا۔ حالات بہت کشیدہ تھے۔ صرف ڈھاکہ میں پُرتشدد ہنگاموں کے دوران اب تک تین سو طلباءاور سول سوسائٹی کے لوگ جاں بحق ہو چکے تھے۔ سینکڑوں کی تعداد میںزخمی تھے۔ جو شہر کے سرکاری و نجی ہسپتالوں میں علاج کی غرض سے داخل تھے۔ حالات بالکل بے قابو ہو چکے تھے۔
حکومت کے مخالفین کا ایک مطالبہ تھا کہ حسینہ اقتدار چھوڑ دیں۔ وزارت ِ عظمیٰ کے عہدہ سے مستعفی ہو جائیں۔ فوج بھی ان سب حالات کو دیکھ رہی تھی۔ بگڑتی ہوئی صورت حال پر قابو پانا بنگلہ دیش آرمی کے بس میں نہیں رہا تھا۔ حسینہ واجد کوآرمی چیف کی طرف سے صاف پیغام دے دیا گیا تھا کہ اپنے عہدہ سے فوری مستعفی ہو جائیں کیونکہ حالات آﺅٹ آف کنٹرول ہو چکے ہیں۔ مگر حسینہ نہ مانیں۔ بضد تھیں کہ اپنے عہدہ سے استعفیٰ نہیں دیں گی۔
اس روز 9اور 10بجے کے درمیانی اوقات میں آرمی چیف، حسینہ کی سرکاری رہائش گاہ پر پہنچے، انہیں ایک بار پھر استعفیٰ پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ واضح الفاظ میں کہا کہ ڈھاکہ میں امن و امان کی صورت حال بہت خراب اور تشویش ناک ہے۔ وقت جیسے جیسے گزر رہا ہے، ہزاروں کی تعداد میں مشتعل مظاہرین سڑکوں پر جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جن میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ انتہائی خطرناک صورت حال ہے جس سے بچنے کے لیے استعفیٰ ضروری ہے۔ مگر حسینہ تمام تر آگاہی کے باوجود بضد تھیں کہ استعفیٰ نہیں دیں گی۔ جس کے بعد آرمی چیف مایوس ہو کر دوسرے کمرے میں چلے گئے جہاں انہوں نے حسینہ کی چھوٹی بہن ریحانہ سے ملاقات کی۔ سمجھانے کی کوشش کی کہ ملک میں حالات کتنے سنگین ، کشیدہ اور خراب ہیں۔ اس سے پہلے کہ مشتعل مظاہرین ایوان وزیراعظم کا رخ کریں اور ہاﺅس میں داخل ہو جائیں، وزیراعظم کا مستعفی ہو جانا ہی مناسب ہے۔ اس گفتگو کے بعد بہن ریحانہ نے بھرپور کوشش کی کہ بڑی بہن حسینہ واجد کو ہر ممکن طریقے سے استعفیٰ پر آمادہ کر سکیں مگر حسینہ نہیں مانیں۔
اگلے دس پندرہ منٹ میں لندن میں مقیم حسینہ کے بڑے بیٹے نے فون پر ماں سے رابطہ کیا۔ ملک کی بگڑتی ہوئی مخدوش صورت حال کے تناظر میں استعفیٰ کا مشورہ دیا۔ یہ بھی کہا کہ اُن کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ جس کے بعد شیخ حسینہ استعفیٰ پر آمادہ ہو گئیں۔ ایک سادہ کاغذ پر صدر کے نام استعفیٰ لکھ کر آرمی چیف کے حوالے کیا جو ابھی تک حسینہ کی سرکاری رہائش گاہ پر موجود تھے۔ آرمی چیف نے استعفیٰ لکھے جانے کے بعد حسینہ کو یہ مشورہ دیا کہ صورت حال کے پیش نظر وہ ملک چھوڑ دیں کیونکہ اُن کی جان کو خطرہ ہے۔ حسینہ اُس پر تیار ہو گئیں اور فوری بھارت جانے کا فیصلہ کر لیا۔ آرمی چیف نے کہا کہ فوج انہیں ہیلی کاپٹر فراہم کر دے گی۔ جس میں وہ بحفاظت ملک سے جا سکتی ہیں۔
حسینہ نے آمادگی ظاہر کی۔ جس کے بعد وہ اپنی بہن ریحانہ کے ہمراہ فوجی ہیلی کاپٹر میں بھارت کے لیے روانہ ہو گئیں۔ سرکاری میڈیا نے اُس وقت تک حسینہ کے مستعفی ہونے اور ڈھاکہ چھوڑنے کی خبر کو چھپائے رکھا۔ جب تک کہ وہ بنگلہ دیش کی حدود سے باہر نہیں نکل گئیں۔
بھارت میں ”اگرتلہ“ حسینہ کا پڑاﺅ تھا۔ یہ وہی مقام ہے جہاں بیٹھ کر حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمن نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو دولخت کرنے کی سازش تیار کی تھی اور دہشت گرد تنظیم ”مکتی با ہنی“ کی بنیاد رکھی تھی۔
شیخ حسینہ کا ارادہ ہے کہ بھارت میں کچھ عرصہ قیام کے بعد برطانیہ چلی جائیں جہاں پہنچ کر سیاسی پناہ حاصل کریں۔ بعد ازاں ”عوامی لیگ“ کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کر دیں۔
شیخ حسینہ واجد کے خلاف کامیاب احتجاجی تحریک کی قیادت کرنے والا طالب علم زاہد اسلام ہے۔ جس نے طلباءتحریک کے نتیجے میں حسینہ واجد جیسی ڈکٹیٹر کو وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ چھوڑ کر ملک سے بھاگنے پر مجبور کیا۔زاہد اسلام کون ہے؟ آئیے، اس بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ 26سالہ زاہد اسلام ڈھاکہ یونیورسٹی میں سوشیالوجی کا طالب علم ہے۔ اُس کا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے ہے۔ والد سکول ٹیچر ہیںجبکہ والدہ ہاﺅس وائف ہیں۔ زاہد اسلام کا ایک ہی بھائی ہے جو اُس سے چھوٹا ہے۔ زاہد اسلام شادی شدہ اور انسانی حقوق کے کارکن کے طور پر کام کرنے کی وجہ سے خاصا مشہور ہے۔
زاہد اسلام نے کچھ عرصہ قبل بھی حسینہ کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ جس پر حسینہ حکومت نے اسے دہشت گرد قرار دیا۔ 19جولائی 2024 کو زاہد اسلام کو ”سبزباغ“ میں اُس کے گھر سے سادہ کپڑوں میں ملبوس 25کے قریب افراد اغواءکر کے اپنے ساتھ لے گئے۔تاہم چند روز محبوس رکھنے کے بعد اُسے چھوڑ دیا گیا۔ پھر کچھ ہی دنوں بعد باوردی پولیس کے کچھ اہلکاروں نے زاہد اسلام کو دوسری بار اغواءکیا۔ اس بار زاہد کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اور اسے کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ جہاں ہتھکڑیاں لگا کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق زاہد اسلام اس اغواءکے دو دن بعد ایک پل کے نیچے بے ہوش پایا گیا۔ زاہد کی جائے پیدائش ڈھاکہ ہے۔ جہاں وہ 1998ءمیں پیدا ہوا۔ یونیورسٹی کے ایک طالب علم نقیب اسلام نے ”رائٹر“ کو دئیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ زاہد اسلام کے پاس ناقابل یقین صلاحیت ہے۔ اس نے ہمیشہ کہا ”ملک کو بدلنے کی ضرورت ہے“ اُسے پولیس نے دو بار اٹھایا۔ بہیمانہ تشدد بھی کیا، اس کے باوجود باطل کے خلاف لڑنے کا اُس کا عزم متزلزل نہیں ہوا۔ وہ لڑتا رہا۔ اُس نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ ملک کی ڈکٹیٹر حکمران کے خلاف اکیلا نکلا اور قافلہ بنتا گیا۔ زاہد اسلام کی طلباءتحریک رنگ لائی اور 16سال تک بلا شرکت غیرے ملک پر حکمرانی کرنے والی حسینہ واجد کو اپنا اقتدار اور ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔
شیخ حسینہ واجد کے استعفے اور ملک سے چلے جانے کے بعد بنگلہ دیش میں حالات تیزی سے معمول پر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ طلباءتحریک کے مطالبے پر صدر شہاب الدین نے 6اگست کو اسمبلی بھی تحلیل کر دی ہے۔ حکومت چلانے کے لیے ایک عبوری سیٹ اپ کا اعلان کیا گیا ہے۔ طلباءتحریک ہی کے مطالبے پر پیرس میں مقیم پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس کو اس عبوری حکومتی سیٹ اپ کی قیادت سونپی گئی ہے۔ ڈاکٹر یونس 82سال کے نوبل انعام یافتہ معروف ماہر اقتصادیات ہیں۔ جب تک نئے انتخابات نہیں ہوتے ، یہ عبوری سیٹ اپ حکومتی فرائض سرانجام دے گا۔
شیخ حسینہ واجد نے اپنے دورِ اقتدار میںجمہوری قدروں کو پامال کیا اور ایک جمہوری ملک میں ڈکٹیٹر کی طرح حکمرانی کی۔ وہ بھارت کے زیادہ قریب تھیں۔ اس لیے بھارت ہی میں پناہ لی۔ جہاں ”اگرتلہ“ میں کسی نامعلوم مقام پر مقیم ہیں۔
ایک ڈکٹیٹر کی حکمرانی کا سورج کیسے غروب ہوا؟ سب نے دیکھا۔ یہ دنیا کے تمام متکبر حکمرانوں کے لیے عبرت کا نشان ہے۔ گہرا سبق ہے۔
حسینہ کی حکمرانی کا سورج کیسے غروب ہوا؟
Aug 13, 2024