فخر پاکستان ارشد ندیم کا ولولہ انگیز خطاب

Aug 13, 2024

زاہد نوید

حرف ناتمام
زاہد نوید
zahidnaveed@hotmail.com

ارشد نریم نے مداحوں کے پر جوش ہجوم میں داد وتحسین کے فلک شگاف نعروں کا جواب دیتے ہوئے مختصر گفتگو بھی کی۔ مگر اپنی اس مختصر گفتگو میں ایسی باتیں کہ گئے جو نہ صرف نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہین بلکہ بزرگوں کے سیکھنے کے لیے بھی ان باتوں مین بہت کچھ ہے۔ ارشد نے اپنی کامیابی پر اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کرتے ہوئے اپنے والرین اپنے کوچ اور ان لوگوں کا بھی شکر ادا کیا جو اسکے معاون و مدد گار تھے۔اس مقام پر وہ سلور میڈل حاصل کرنے والے ہندوستان کے اپنے حریف اور ساتھی نیرج کو نہیں بھولے اس کا بھی نام لیا مگر اس حوالے سے جو بات کہی وہ بے شمار سیاسی تجزیہ نگاروں اور خداوندان اقترارو اختیار کے ان اقوال زریں پر خط تنسیخ پھیرنے کے لیے بہت کافی ہے ارشد نے کہا کہ مجے خوشی ہے کہ اولمپک کے دو بڑے میڈل ایشیا نےجیتے ہین۔ جب مین نے اس کی زبانی یہ ولولہ انگیز جملہ سنا تو میری بھی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کیونکہ یہ بات کسی سیاسی لیڈرانہ زبان سے ادا نہ ہوی تھی کہ میں اسے محض لفاظی سمجھ کے ٹال دیتا۔ یہ بات اس لیے میرے دل میں گھر کر گءکیونکہ یہ ایک ایسے سیدھے سادے مگر پر جوش پاکستانی نوجوان کی آواز تھی۔یہ صرف اپنے کام کی لگن رکھنے والے نوجوان پاکستانی کے دل کی اواز تھی جو اڑوس پڑوس کی دیواروں کو پھلانگ کر ایشیا کے وسیع و عریض بر اعظم پر بسنے والی تمام قوموں کی بلا تفریق مزہب و ملت نمائندہ بن گئے۔
 یہ جملہ کارپردازان ابلاغ عامہ کو بھی خاطر خواہ جواب ہے جو پاکستانی قوم کو سیاست اور مزہب کے نام پر تقسیم کرنے کے عمل میں ہمہ دم جڑے رہتے ہین مثال کے طور پر اگر کبھی ایسا موقع آیا کہ پاک بھارت کی کرکٹ ٹیمیں کھیل کے میدان میں اتریں تودونوں ملکوں کا میڈیا محض جلب زر کی خاطرکھیل کے میدان کو میدان جنگ بنا دیتا ہے افسوس کہ کھیل کا وہ میدان جو جنگجو قوموں کو بھی امن و سلامتی بقاءباہمی اور بھاءچارے کی نیک شگون راہ دکھاتا ہے میڈیا والے اس میں اپنی زبانوں سے ایسے انگارے پھینکتے ہیں کہ الحفیظ و الامان۔ شائقین ان انگاروں سے اپنی جھولیاں بھر کے گھر کی راہ لیتے ہیں 
ارشد ندیم کا وہ گھر جس میں اس نے پرورش پاءپاکستان کے ان بےشمار گھروں میں سے ایک ہے جہاں بچے پیٹ میں بھوک بھر کے غربت کی چھت کے نیچے سو جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بساط سیاست واختیار پر کھیلی جانے والی شطرنج کی چال نہ جانتے ہین نہ جاننا چاہتے ہین دو وقت کی روٹی کے لیے مجبور انکی شمولیت ملکی امور مین بس اتنی ہے کو جب کبھی انتخابات ہون تو الیکٹبلز کے کارندے اور گماشتے انہین بھیڑ بکریوں کی طرح ٹرالیوں میں بھر کے لے جاتے ہین اور یہ اپنے اپنے ووٹ کی پرچی ان کے حوالے کر اتے ہیں ۔اس کے بعد یہ اپنا وجود کھو بیٹھتے ہین ہاں کبھی کبھی ایسا ضرور ہوتاہے کہ اس گودڑی سے کوئی لعل نکل اتا ہے اور کچھ دیر کے لیے ان لوگون کو اپنا وجود واپس مل جاتا ہے۔ 
1924 کا یوم آزادی یقینا" یگونہ اہمیت کا حامل ہے کہ خدا نے ہمیں ارشد ندیم کی فقیدالمثال کامیابی عطا کرکے من حیث القوم اپنے وجود کو تلاش کرنے کا موقع دیا ہے اج پوری دنیا ہمارے پاکستان کا اچھے الفاظ مین ذکر کر رہی ہے۔ اور پاکستانی تارکین وطن چاہے وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں رہتے ہوں وہاں کے لوگوں کے سامنے وہ سر اٹھا کر چلنے لگے ہیں۔ میرا بیٹا ڈاکٹر وقار حسین ناروے کی ایک معروف کمپنی نارڈک مین بطور سینئر انجینئر کام کرتا ہے پرسون نرسوں اس کے ساتھ فون پر بات ہوءتو بہت خوش نظر ایا اس نے پہلی بات یہ کی کہ اسکے آفس کے وہ لوگ جو جانتے تھے کہ ڈاکٹر وقار ایک پاکستانی نوجوان ہے وہ اپنی خوشی کا اظہار کرنے کیلئے اس کے پاس ڈاکٹر وقار کا یہ کہنا ہے اسوقت میں اپنے پاکستانی ہونے پر جتنا خوش تھا اس خوشی کا اندازہ مشکل ہے۔
دیار غیر میں یہ خوشی مجھے فخر پاکستان ارشد ندیم کی اس کامیابی کی بدولت ملی جو اس نے یورپ کی سرزمین پر حاصل کی۔ اس کامیابی نے سبز ہلالی پرچم کی لاج رکھ لی۔سبز پاسپورٹ کا وقار بلند کیا کیونکہ جب ہمارے حکمران و قائدین کہتے ہین کہ اور تو اور ہمارے دوست ملکوں کا یہ حال ہے کہ ہم انہیں ویسے بھی ملنے جائیں تو وہ ملنے سے اس لیے کتراتے ہین کہ مزید قرض نہ مانگ لیں ڈاکٹر وقار نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ اپنے لیڈروں کی ایسی باتیں سن کر ہمارا کسی سے آنکھ ملانے کو جی نہین چاہتا تھا۔ مگر اج میں ان گوروں کے سامنے ایک پاکستانی ایک ایشیاءکی حیثیت سے سر اٹھا کر کھڑا ہوں کہ یہاں کے لوگ ایسی کامیابیوں کےبہت قدر دان ہیں۔

مزیدخبریں