گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
ارشد ندیم جیولین تھرو میں اولمپکس چمپئن بنے، اس کے بعد نہ صرف پاکستان میں ان کی انتہائی زیادہ پذیرائی ہو رہی ہے بلکہ بھارت میں بھی آج اسی کا چرچا ہے۔ سب سے جذباتی منظر اس وقت سامنے آیا جب ان سے ہارنے والے نیرج چوپڑا کی والدہ سروج دیوی نے ارشد ندیم کے بارے میں کہا کہ وہ بھی ہمارا ہی بچہ ہے۔ اس کے بیٹے نیرج چوپڑا کو چاندی کا میڈل ملا ، سروج دیوی کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے یہ بھی سونے جیسا ہے۔ ارشد ندیم نے سونے کا تمغہ جیتا ہے وہ بھی ہمارا بیٹا ہے۔ ارشد ندیم کی والدہ نے بھی صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ نیروج چوپڑا میرے بیٹوں جیسا ہے اور اس لیے ہم نے ایک نہیں دو میڈل جیتے ہیں۔جیولین تھرو میں پاکستان نے سونے کا جب کہ بھارت نے چاندی کا تمغہ حاصل کیا اور دونوں نوجوانوں کا تعلق پنجاب سے ہے اور ان کے گاﺅں ،گھر ایک دوسرے سے بہت زیادہ دور نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں پنجابی ہیں اوردوست بھی ہیں۔ کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے نیرج چوپڑا کی طرف سے اپنی اس شکست کو فراخدلی کے ساتھ تسلیم کیا ہے۔ اس نے اپنے حریف پاکستانی کھلاڑی ارشد ندیم کو والہانہ پن سے مبارک باد دی ہے۔ ارشد ندیم نے پیرس اولمپک میں مردوں کے جیولین تھرو کے مقابلوں میں 92.97میٹر فاصلے پر جیولین تھرو پھینک کر نیا اولمپکس ریکارڈ قائم کیا اور طلائی تمغہ حاصل کیا۔ اس کے مقابلے میں نیرج چوپڑا نے چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔پاکستان کے حصے میں یہ میڈل چار دہائیوں کے بعد آیا ہے۔ چار دہائیوں کے بعد کسی بھی کھلاڑی کی یہ بہترین پرفارمنس ہے اور ارشد کی زندگی کے کیریئر کی بھی یہ اعلیٰ ترین پرفارمنس ہے۔ انڈیا کے نیرج چوپڑا نے 2020ءکے ٹوکیو اولمپکس میں گولڈ میڈل جیت کر تاریخ رقم کی تھی تاہم گذشتہ روز نیرج چوپڑا کا بہترین تھرو 89.45میٹر تھا اور وہ یوں مسلسل دوسری بار اولمپکس میں گولڈمیڈل جیتنے سے محروم رہے ہیں۔ کھیل ختم ہونے کے بعد ان کی طرف سے صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہر ایتھلیٹ کا ایک دن ہوتا ہے، ٹوکیو میں میرا دن تھا لیکن آج ارشد کا دن تھا اور جس ایتھلیٹ کا دن ہوتا اس دن اس پر ہرچیز پرفیکٹ ہوتی ہے جیسے آج ارشدندیم کی تھی۔
نیرج چوپڑا اور ارشدندیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے حریف بھی ہیں اور ایک دوسرے کے بہترین دوست بھی ہیں۔بھارت میں آج یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ اگر یہ دو کھلاڑی آپس میں حریف ہونے کے ساتھ دوست بن سکتے ہیں تو پھر پاکستان اور انڈیا ایک دوسرے کے قریب کیوں نہیں آ سکتے۔نیرج چوپڑا اور ارشد ندیم کا موازنہ کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان کے پاس کہا جاتا ہے کہ نیزوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور ان کی حکومت ان کی سرپرستی کرتی رہی ہے اور حکومت ان کے آنے جانے کے اخراجات برداشت کرتی تھی۔اور ہر ملک میں یہی ہوتا ہے کہ اولمپکس میں حصہ لینے کے لیے جو کھلاڑی بھیجے جاتے ہیں وہ حکومتی انتظامات کے تحت ہی بھیجے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں باوا آدم نرالا ہے اس اولمپکس میں پانچ کھلاڑیوں اور اکیس عملے کے افراد نے حصہ لیا ان میں سے چار کھلاڑیوں کو حکومت کی طرف سے اخراجات دیئے گئے یعنی حکومتی انتظامات کے تحت چار کھلاڑی اولمپکس میں حصہ لینے کے لیے گئے تھے جبکہ ارشد ندیم واحد کھلاڑی ہیں جنہوں نے اپنے اخراجات پر اولمپکس میں حصہ لیا۔اور پاکستان میں یہ ہوتا رہا ہے کہ اولمپکس میں شرکت کے لیے جانے والے کھلاڑی حکومت سے ہی کہتے ہیں کہ ہمیں وہاں تک لے جائیں، ہمارے اخراجات برداشت کر لیں وہاں پر جو ہمیں ٹی اے ڈی اے ملے گا ان میں سے یہ اخراجات آپ مائنس کر لیں۔ تو یہ کھیلوں کے حوالے سے انتہائی درجے کی بدانتظامی ہے۔ اگر آپ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے تو وہ خاک پاکستان کے لیے خدمت کریں گے، خاک پاکستان کے لیے تمغہ لائیں گے۔اس کے باوجود بھی ارشد ندیم کی طرف سے ان کے پاس کہتے ہیں کہ ایک جیولین تھرو تھا وہ ٹوٹ گیا تو کسی دوست کی طرف سے ان کو دو نیزے لے کر دیئے گئے انہیں دو نیزوں کے ساتھ وہ ہمیشہ سے پریکٹس کرتے چلے آ رہے ہیں۔ذاتی طور پر انہوں نے تیاری کی، پریکٹس کی اور پھر اولمپکس میں چلے گئے،بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کو سرخرو کر دیا۔ جب سے اولمپکس شروع ہوئے یہ طویل ترین تھرو ہے۔ ایک عام گھر کا ، عام خاندان کا بچہ جس کے پاس پریکٹس کے لیے گراﺅنڈ نہیں تھا، جس کے پاس پریکٹس کے لیے کٹ نہیں تھی ،بوٹ نہیں تھے۔ اس پر قدرت اس طرح سے مہربان ہوئی کہ وہ راتوں رات ارب پتی بن گیا۔
یہاں پر پاکستانیوں کو ،پاکستانی حکام کو ،وزیراعلیٰ پنجاب کو، وزیراعلیٰ سندھ کو، وزیراعظم شہبازشریف کو، آرمی چیف جنرل آصف منیر کو اور دیگر جن لوگوں کی طرف سے بھی ان کے ساتھ ان کی جیت کے بعد تعاون کیا گیا ، ان کی پذیرائی کی گئی اور ان کو انعامات سے نوازا گیا ، بہت سی پرائیویٹ کمپنیاں بھی ان کو انعامات دے رہی ہیں تو سب کو ایپرشیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ بہرحال یہ پیسے بھی ان کے، ان کے خاندان کے اور کھیلوں کے حوالے سے کہیں نہ کہیں ضرور کام آئیں گے۔ لیکن اگر یہ سارا کچھ کسی ایک ادارے کی طرف سے ایک حکومت کی طرف سے کر دیا جاتا تو کتنا ہی بہتر ہوتا۔ اس سے زیادہ بہتر پرفارمنس تو بہرحال نہیں ہو سکتی تھی لیکن جس طرح انہوں نے 92.97میٹر جیولین تھرو پھینکی ہے ایک نیا ریکارڈ بنایا ہے اور اس نے ایک سو اٹھارہ سال پرانا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ بلاشبہ ان کی یہ محنت کا، ا ن کی پریکٹس کا نتیجہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ قدرتِ کاملہ بھی ان کے ساتھ کھڑی تھی وہ جتنا بھی ضرور لگا لیتے کوئی بھی جتنا ضرور لگا لے لیکن اوپر سے جب منظوری نہیں ہوتی اس طرح کی کامیابیاں نہیں ہوتیں۔اب جو بھی ہوا جیسے تیسے یہ ایک لڑکا پاکستان سے گیا، وسائل اس کے پاس نہ ہونے کے برابر تھے، یہ ورلڈ چیمپئن بن گیا۔ اللہ تعالی نے اس کے توسط سے پاکستان کا نام بھی پوری دنیا میں بلند اور روشن کیا۔ اب یہاں پر ضرورت کس بات کی ہے، ضرورت اب اس امر کی ہے کہ اس طرح کے جتنے بھی کھلاڑی ہیں وہ فٹ بال کے ہیں، ہاکی کے ہیں، جیولین تھرو کے ہیں، ریسلنگ کے ہیں، سکواش کے ہیں، شوٹنگ کے ہیں جس بھی شعبے سے ان کا تعلق ہے۔اگر وہ کچھ کرنے کا عزم و ارادہ رکھتے ہیں تو حکومتی سرپرستی ان کی ضرور ہونی چاہیے۔
جہاں ارشد ندیم کی طرف سے پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کیا گیا وہیں ان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ سب سے پہلے تو میں بڑی کامیابی پر اللہ کا شکر گزار ہوں اس کے بعد میرے والدین اورپوری قوم کی دعائیں میرے ساتھ رہیں، بالخصوص میرے کوچ سلیمان اقبال بٹ کی انتھک محنت اور ڈاکٹر علی شیر باوجوہ کی حمایت سے میں سنگ میل عبور کرنے میں کامیاب رہا۔ارشد ندیم نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ گولڈ میڈل پوری قوم کو یومِ آزادی پر گفٹ کر دیا ہے۔1992 ءمیں پاکستان کی طرف سے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا گیا تھا۔ اس کے بعد پاکستا ن نے کوئی ایسا معرکہ سرانجام نہیں دیا تھا کہ پوری قوم فخر سے سربلند رکھ سکے۔اور آج سے چالیس سال پہلے پاکستان نے کھیلوں میں اولمپکس میں گولڈ میڈل حاصل کیا تو چالیس سال بعد ارشدندیم نے وہ کارنامہ ایک دفعہ پھر انجام دیاہے۔جس طرح پاکستان کی طرف سے 92ءکا ورلڈ کپ جیتا گیا تھا ،اسی طرح سے 92ءہی میں اولمپکس میں پاکستان نے ایک معرکہ انجام دیا تھا۔ 8اگست 1992ءکو اولمپکس میڈل پوڈیم پر قدم رکھا تھا جب قومی ہاکی ٹیم نے بارسلونا اولمپکس میں نیدر لینڈ کو تین کے مقابلے میں چار گول سے شکست دے کر کانسی کا تمغہ جیتا تھا جبکہ پاکستان نے آخری مرتبہ 1984ءمیں اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا تھا جو کہ ہاکی ٹیم ہی نے دلوایا تھاتو یہاں پر یہ بات بھی کرنے والی ہے کہ آج پاکستان میں کہیں بھی ہاکی کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔جدھر دیکھیں کرکٹ ہی کرکٹ ہے، کبھی پاکستان کا ہاکی میں طوطی بولتا تھا تو ایسی کھیلوں کی طرف آج بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر توجہ دی جاتی ہے تو ہر کھلاڑی پاکستان کا ارشد ندیم بن کر دکھا سکتا ہے۔پاکستان سپورٹس بورڈ اور کھیلوں کی منسٹری کی بدانتظامی کا یہ حال ہے کہ کھلاڑیوں کو واجبات ادا نہیں کیے جاتے اور سہولتیں بھی صفر کے برابر ہیں مگر بورڈ کے پاس جو 38کروڑ روپے بجٹ میں پڑے تھے وہ کھلاڑیوں کی فلاح پر نہیں لگائے گئے بلکہ اندرونی لڑائی اور اناد کی وجہ سے یہ بجٹ استعمال نہ ہو سکا اور حکومت کے خزانے میں واپس چلا گیا۔جب کہ یہ صرف پانچ کھلاڑی جو ملک کی نمائندگی کرنے جا رہے تھے بورڈ ان کی ٹکٹیں بھی نہیں دے پا رہا تھا۔کل 14اگست ہے اس موقع پر میری اور میری فیملی کی طرف سے ادارہ نوائے وقت کی چیف ایڈیٹر محترمہ رمیزہ مجید نظامی صاحبہ اور سارے سٹاف اور ہم وطنوں کو جشنِ آزادی مبارک ہو۔آمین!