حکمران مسلم لیگ (ن) کے رہنماءاور وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناءاللہ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی فیصلہ صادر کرنے والے سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج جسٹس سید منصور علی شاہ کے اس فیصلہ کے حوالے سے ایک پبلک فورم پرخطاب اور انکے اس استدلال کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ متعلقہ اداروں کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد لازمی آئینی تقاضا ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز اپنے بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ کے جج کا کام تقریریں کرنا نہیں‘ پارلیمنٹ جو قانون بنائے عدالتوں کو اسی کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ رانا ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ قانون بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے‘ عدالتیں قانون و آئین کے مطابق فیصلے کرنے کی پابند ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے بھی جسٹس منصور علی شاہ کے خطاب پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ جسٹس منصور علی شاہ کے اس موقف سے سو فیصد اتفاق کرتے ہیں کہ انتظامیہ کے پاس عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کے سوال کوئی چوائس نہیں‘ ورنہ آئینی توازن بگڑ جائیگا تاہم ان سے صرف اتنی سی رہنمائی مطلوب ہے کہ کیا عدالتی فیصلوں کا آئین و قانون کے مطابق ہونا بھی آئینی تقاضا ہے یا نہیں اور کیا عدلیہ کے پاس یہ چوائس موجود ہے کہ وہ آئین کے واضح اور غیرمبہم آرٹیکلز کی نفی کرتے ہوئے اپنی مرضی کا آئین لکھ لے۔ اور کیا اس صورت میں آئین کا توازن نہیں بگڑے گا۔
ہمارا یہی المیہ ہے کہ ملک میں ادارہ جاتی سطح پر آئین و قانون کی حکمرانی کا تصور کبھی پنپ ہی نہیں پایا جبکہ ریاستی آئینی اداروں کی قیادتوں اور دوسری شخصیات نے اپنی متعینہ آئینی حدود و قیود میں رہ کر کام کرنا کبھی گوارا نہیں کیا چنانچہ آئین کو موم کی ناک بنا کر اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے ماضی سے اب تک کئی مناظر سامنے آچکے ہیں جو پورے سسٹم کو ڈی ریل کرنے پر منتج ہوتے رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے اپنے ہی وضع کئے گئے کوڈ آف کنڈکٹ پر بھی کبھی عمل ہوتا نظر نہیں آیاجس کے تحت عدلیہ کے ارکان کے پبلک مقامات پر جانے سے گریز کی پابندی بھی لگائی گئی ہے جبکہ یہ ضرب المثل بھی عدلیہ سے ہی منسوب ہے کہ جج خود نہیں‘ اسکے فیصلے بولتے ہیں۔ اسکے برعکس آج اعلیٰ عدلیہ کے فاضل ارکان کسی کیس کی سماعت کے دوران بھی اور اس کا فیصلہ صادر ہونے سے پہلے بھی پبلک مقامات پر متعلقہ کیس کے حوالے سے اپنے خیالات کے اظہار سے گریز نہیں کرتے۔ بے شک ہر ادارہ آئین و قانون کا پابند ہے جس سے کسی کی جانب سے تجاوز ہوگا تو اس پر سوال بھی اٹھیں گے۔ مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اٹھتے سوالات اسی کے عکاس ہیں اور رانا ثناءاللہ اور سینیٹر عرفان صدیقی نے اسی تناظر میں جسٹس منصور علی شاہ کے خطاب پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ے شک جہاں دوسرے ریاستی انتظامی ادارے آئین و قانون کے پابند ہیں وہیں عدلیہ کی جانب سے آئین و قانون کی پابندی کرنا بھی لازمی آئینی تقاضا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کے خطاب پر رانا ثناء اور عرفان صدیقی کے استفسارات
Aug 13, 2024