آخر ہم جانا کہاں چاہتے ہیں

یونانی اساطیر (Mythology) میں ایک ذکر کمتر دیوتا پرومی تھیوس کا بھی ہے جو سردی سے ٹھٹھرتے جاہل انسانوں کو آگ جلانے کا علم تو سکھا بیٹھا لیکن اس کی سزا آج تک بھگت رہا ہے۔ بڑے یونانی دیوتا زیوس کو اس کی یہ بات پسند نہ آئی اور اسے کوہ کاف کے ایک پہاڑ پر چٹان سے باندھ دیا جہاں روز ایک عقاب صبح سے شام تک اس کا جگر کھاتا ہے اور جب عقاب جاتا ہے تو پرومی تھیوس کا جگر دوبارہ واپس آ جاتا ہے تاکہ اسے اگلے روز پھر اذیت مل سکے۔ 
گزشتہ دنوں کشور ناہید کی ایک تحریر ”70 برس بعد ”ہمیں جانا کہاں ہے“ نظر سے گزری۔ جس میں انہوں نے عوام کی طرف سوال کیا ہے کہ ”70 برس بیت گئے آخر ہمیں جانا کہاں ہے“ ان کے اس سوال پر غور کیا تو شاعر ساغر صدیقی بھی بہت یاد آئے جنہوں نے یہ سوال وطن عزیز کی 23 ویں سالگرہ پر کچھ اس طرح کیا تھا
گونگا ماضی اندھا حال
اجڑے پنچھی ٹوٹی ڈال 
پھیلے ہیں انجانے جال
بیت چکے ہیں 23 سال 
ساغر کو دیکھا تو ہوگا 
اجڑے اجڑے بکھرے بال
اب جبکہ ساغر صدیقی کے شعر کو کم و بیش 54 اور کشور ناہید کی تحریر کو 7 برس گزرنے والے ہیں یہ سوال زیادہ سنگین ہو کر ہمارے سامنے آ کھڑا ہوا ہے اور اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ملک کے پرومی تھیوسوں کو جو روشنی کی کرنیں بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں ہولناک تسلسل سے زنجیروں سے جکڑے جانے کا سلسلہ جاری ہے حیرت ہے علم و دانش کو قید کرکے ہم آخر کونسی منزل کو پانے کی جستجو کر رہے ہیں علم و دانش کی راکھ سے کونسے اقتدار کو دوام بخشنے کے درپے ہیں؟
ہمارے نصاب تعلیم حقیقی دانش سے محروم ہیں تو ہمارے ارباب اختیار، سیاسی جماعتیں، میڈیا اور بہت سے پڑھے لکھے طبقات بھی علم کی جستجو سے کبھی کے ہاتھ کھینچ چکے ہیں جہالت اور پسماندگی کی آبیاری یوں کی جا رہی ہے جیسے یہ آگے بڑھنے کا واحد زینہ ہو۔ علم و دانش کی ترقی کے حوالے سے ہر سو جالب کا ”ہو کا عالم“ رقصاں ہے اور ساغر ہی کی زبان میں دستور گونگے اور فرمان اندھے ہو چکے ہیں۔ آخر ہمیں جانا کہاں ہے! 
 قیام پاکستان کے ساتھ ہی ارباب اختیار کی جانب سے جو بہت سی ”مہربانیاں“ کی گئیں اور ان کے ”صدقے“ جو بدعتیں، سازشیں، آمریتیں اور ہر طرح کی بے انصافیاں سر اٹھانے لگیں ان کے ساتھ اس بات کا بھی خصوصی اہتمام کیا گیا کہ عوام حقیقی علم و دانش سے جتنا ممکن ہو سکے دور رہیں۔ پڑھنے لکھنے نہ پائیں اور اگر کسی کے ساتھ یہ ”سانحہ“ پیش آ بھی جائے تو وہ ”ایک حقیقت اور ایک افسانے“ والے ماحول سے باہر نہ نکل سکے کہ علم و دانش جھوٹ کا زوال ہوا کرتے ہیں جو اشرافیہ کو کسی صورت قبول نہ تھا۔غرض عوام کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو نچلے درجہ پر رکھنے کیلئے پرومی تھیوسوں پر ہر طرح کے عقاب اور عذاب چھوڑے جاتے رہے، کنوئیں کے مینڈکوں کو ”وسیع و عریض“ کی پہچان بھلا دی گئی اور وہ کنوو¿ں کو ہی سب کچھ سمجھ کر ذہنی فالج کا شکار ہوکر رہ گئے، تبتی بدھ مت کے ایک استاد ”سوگیال“ نے ایک کتاب (The Tibetan book of Living and Dying)کے نام سے تحریر کی ہے جس میں انہوں نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک بار سمندر کا مینڈک اپنے چچا کے گھر کنوئیں میں مہمان بن کر آیا تو چچا نے اسے کہا کہ ”دیکھو کتنا بڑا گھر ہے۔ کیا کبھی اتنا بڑا گھر دیکھا بھی ہے۔ میں تو کہتا ہوں یہیں مستقل قیام کرلو“۔ جب چچا کی تکرار بہت بڑھی تو بھتیجے نے چچا کو اپنا گھر (یعنی سمندر) دکھانے کا فیصلہ کر لیا سمندر دیکھتے ہی چچا اسی طرح ذہنی فالج کا شکار ہو گیا جس طرح ہم دنیا کی حقیقی ترقی دیکھ کر ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ارباب اختیار نے عملی سوچ کو شروع ہی سے گھاس پھوس قرار دیکر عوام کی پہنچ سے دور رکھا ہوا ہے۔ بقول وارث میر ضیاءالحق کے دور میں تو یہ سلسلہ اس حد تک بڑھا کہ عملی باتوں کا سبق دینے والے ادیب اپنی قمیصوں کے پھٹے کالروں کے ساتھ پاک ٹی ہاو¿س کے اندر اور باہر بکھرے دکھائی دیتے اور کسی صاحب حیثیت کے انتظار میں جو انہیں ایک وقت کا کھانا کھلا سکے گھنٹوں گزار دیتے کیونکہ ان کی تخلیقات کو شائع کرنے والے پبلشروں پر پرومی تھیوس کی طرح عقاب اور عذاب چھوڑ دیئے جاتے تھے۔ عوام الناس تو ایک طرف، ہماری جامعات بھی کسی مناسب رینکنگ پر نہیں آ پائیِں۔ تحقیقی کام صرف کاغذوں کی زینت بن چکا ہے اور ہم اپنی ایک الگ سی دنیا بسائے گھور اندھیروں میں روشنیاں تلاش کرنے کی مہم اس طرح سر کرنے میں مصروف ہیں جس طرح ملا نصیر الدین گھر کے باہر سوئی تلاش کرنے میں مصروف تھے۔ کسی خیر خواہ نے پوچھا کہ ”بھائی کیا تلاش کر رہے ہیں “ تو فرمایا ”سوئی “ خیر خواہ نے پوچھا کہاں گم ہو گئی تھی تو نصیر الدین بولے گھر میں.... خیر خواہ نے تلملا کر کہا کہ ”پھر یہاں کیوں تلاش کر رہے ہیں“ ملا نصیر الدین نے معصومیت سے کہا ”گھر میں اندھیرا بہت ہے“۔ آج کے ٹیکنالوجی کے ہائی فائی دور نے کہیں ہمارا بھی تو یہی حال نہیں کر دیا کہ ہم گھر میں گم ہونےوالی سوئیاں دنیا بھر میں تلاش کرتے پھر رہے ہیں اور ہم میں سے جو سوئی تلاش کر سکتے ہیں انہیں بھی گھر کے اندھیرے سے مایوس کرکے ”برین ڈرین ( drain Brain) کے ذریعے بیرونی دنیا کے سفر پر روانہ کر بیٹھے ہیں۔ آخر ہم جانا کہاں چاہتے ہیں! 
چلتے چلتے آج کے انتہائی تیز طرار دور میں اپنے ہاں رائج شکستہ تعلیمی نظام کے حوالے سے بھی ایک لطیفہ سن لیں اور پھر یہ ضرور سوچیں کہ آخر ہم جانا کہاں چاہتے ہیں ؟
محکمہ تعلیم کے ایک انسپکٹر سکول کے معائنے کیلئے تشریف لئے گئے۔ 9 ویں جماعت کے طالبعلم سے سوال کر بیٹھے کہ ”بتاو¿ بھئی درہ خیبر کس نے اکھاڑا تھا“ اس پر طالبعلم نے نیم معصومانہ اور نیم شکایتی انداز میں جواب دیا کہ ”سر یہ میرا کام نہیں، جانے کیوں ہر غلط کام کا الزام مجھ پر آ جاتا ہے“ انسپکٹر صاحب نے حیرانی سے استاد کی طرف دیکھا تو استاد نے ان کی نظریں بھانپ کر فوری جواب دیا کہ ”آپ نے خوب پہچانا اسی نے اکھاڑا ہوگا، یہی سب سے بڑا شرارتی ہے“ ۔ انسپکٹر صاحب شکوہ لیکر پرنسپل صاحب کے پاس گئے تو صاحب بہادر نے فوراً استاد کو بلایا اور رعب دار آواز میں بولے ”کیا مذاق ہے روز ہی کچھ نہ کچھ اکھاڑ دیا جاتا ہے اور زیادہ تر یہ کام آپکی جماعت کے ہونہار فرزند ہی انجام دیتے ہیں اس طالبعلم سے درہ خیبر کے پیسے جرمانے کے طور پر وصول کریں اور خبر دار آئندہ ایسا نہ ہو“پھر انسپکٹر صاحب کا موڈ ٹھیک کرنے کیلئے کہا ”آپ نے بالکل ٹھیک طالبعلم کی نشاندہی کی“ انسپکٹر صاحب نے سیدھے سیکرٹری تعلیم کو شکایت بھرا خط لکھ دیا۔ سیکرٹری صاحب خط پڑھ کر بہت غصہ ہوئے۔ فوراً اپنے اسسٹنٹ کو بلوا کر متعلقہ سکول پرنسپل صاحب کے نام خط تحریر کرایا کہ آپکے سکول کی نالائقی آخری حدکو چھونے لگی ہے اس بار تو درہ خیبر ہی اکھاڑ دیا گیا۔ زر تلافی جیب سے ادا کرنے کیلئے تیار ہو جائیں۔

ای پیپر دی نیشن