ہمارے آئین کا ”بنیادی تقاضا“ اور برطانوی عدالتیں

سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج، جو انشاءاللہ جلد ہی چیف جسٹس کے منصبِ بلند پر فائز ہوں گے، عزت مآب جسٹس منصور علی شاہ نے فرمایا ہے کہ ”عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد لازمی تقاضا ہے اور انتظامیہ کے پاس اِسکے سوا کوئی’چوائس‘ نہیں۔ اِس طرف چل پڑے تو آئینی توازن بگڑ جائےگا۔ سپریم کورٹ کو یہ اتھارٹی آئین نے دی ہے۔“ جی چاہتا ہے کہ جج صاحب کے اِن ارشادات پر کچھ لکھوں لیکن میری توجہ فی الحال برطانیہ کی ان عدالتوں کی طرف ہے جو تعطیلات پر جانے کے بجائے چوبیس گھنٹے کھلی ہیں اور ہمارے برعکس ایک مختلف انداز کی تاریخ لکھ رہی ہیں۔ جج صاحب کی بارگاہِ عدل میں کھڑے دست بستہ سائل کے طورپر صرف یہ پوچھنے کی جسارت کررہا ہوں کہ اگر عدالت، آئین کے تحت دی گئی تعبیروتشریح کی ”اتھارٹی“ سے بہت آگے نکل کر، خود اپنی مرضی کا آئین تحریر کرنے لگے یا آئین کی واضح اور غیرمبہم شقوں سے انحراف کرتے ہوئے اپنی رائے کو ان سے زیادہ معتبر جانے تو کیا ”آئینی توازن“ برقرار رہے گا؟ اور اگر نہیں رہے گا تو زخم خوردہ آئین اپنے زخموں کی بخیہ گری کےلئے کس مسیحا کے دروازے پر دستک دے؟ آئین وقانون بنانے اور اسکے تحفظ کی قسم کھانے والی پارلیمنٹ کون سے دربار کی زنجیرِ عدل ہلائے ؟ اور اس ”آئینی عدمِ توازن“ کی زد میں آنے والے پچیس کروڑ عوام کس ماتم کدے کا رخ کریں؟ جج صاحب نے سو فی صد درست فرمایا کہ ”فیصلوں پر عمل درآمد لازمی تقاضا ہے اور انتظامیہ کے پاس اسکے سوا کوئی چوائس نہیں“ لیکن ایک ’لازمی تقاضا‘ فیصلہ کرنے سے پہلے یا فیصلہ کرتے ہوئے بھی ہے کہ وہ ملکی آئین وقانون سے مطابقت رکھتا ہو اور منصف کی ذاتی پسند ناپسند کی آلائش سے پاک ہو۔ عدلیہ کے پاس بھی اس لازمی تقاضے کی پاسداری کے سوا کوئی ’چوائس‘ نہیں۔ عدلیہ کو تشریح وتعبیر کی اتھارٹی دینے والا آئین، عدلیہ کو اِس لازمی تقاضے کا پابند ٹھہراتا ہے۔ کسی اور ادارے کو ”لازمی تقاضے“ کی یاددہانی کرانے والے ادارے کو اپنے ”لازمی تقاضے“ کی پاس داری کے بعد ہی ایسا کرنا چاہیے۔ 
جیسا کہ عرض کیا، برطانیہ میں ضلعی سطح کی کچھ عدالتیں چوبیس گھنٹے کھلی ہیں اور انصاف پروری کی ذمہ داری انتظامیہ پر ڈالنے کے بجائے اپنے حصّے کے چراغ جلا رہی ہیں۔ ہوا یہ کہ 29 جولائی کو برطانوی شہر’ ساﺅتھ پوسٹ‘ میں ایک تقریب کے دوران، سترہ سالہ مقامی نوجوان نے چھری نکالی اور رقص کرتی کم سن بچیوں پر حملہ کردیا۔ تین بچیاں ہلاک ہوگئیں اور دَرجن بھر زخمی۔ سوشل میڈیا پر ایک بے بنیاد جھوٹی خبر کے ذریعے قاتل کو مسلمان اور باہر سے آیا ہوا تارکِ وطن قرار دے دیا گیا۔ یکایک ہنگامے پھوٹ پڑے۔ دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے مساجد اور مسلم آبادیوں پر حملے شروع کردیے۔ بلووں کی آگ دور دور تک پھیل گئی۔ انتظامیہ فوری طورپر متحرک ہوئی۔ مقامی عدالتیں چوبیس گھنٹے کھول دی گئیں۔ بلوائیوں کی شناخت اور گرفتاریوں کا عمل اِس تیزی سے شروع ہوا کہ تیسرے دن ہی انہیں عدالتوں میں پیش کیا جانے لگا۔ سزائیں سنائی جانے لگیں۔ جیلوں کے پھاٹک کھلنے لگے۔ قانون متحرک ہوگیا اور انصاف کے تقاضے پورے ہونے لگے۔ نہ کوئی التوا، نہ استثنیٰ، نہ جج چھٹی پر نہ وکیل غائب، نہ ہڑتال نہ بائیکاٹ، نہ کوئی حکمِ امتناعی نہ کسی جج پر عدمِ اعتماد، نہ ’انسانی حقوق‘ کا واویلا نہ برق رفتار عدالتی عمل پر حرف گیری۔ 
چونتیس سالہ، ’سٹینی وِنٹ‘ کو عدالت کے سامنے پیش کیاگیا۔ الزام تھا کہ اس نے ایک پہیے والے کوڑادان کو آگ لگا کر پولیس کی طرف لڑھکادیا۔ جج نے دو گھنٹوں کی سماعت کے بعد سٹینی کو بیس ماہ قید سنادی۔ اِسی گروہ میں شامل اکتّیس سالہ چارلی کو اس جرم میں اٹھارہ ماہ قید کی سزا دے دی گئی کہ وہ ہجوم کو اکسانے کے لئے نعرے لگا رہا تھا۔ اٹھائیس سالہ ’جورڈن پارکر‘ نے فیس بک پر ایک اشتعال انگیز پیغام ڈالا۔ اس کی بوڑھی ماں نے جج سے التجا کی ”میرا بیٹا معصوم ہے۔ اس نے محض شہر کی جذباتی رَو میں بہتے ہوئے یہ پوسٹ لگا دی۔“ وکیل نے بتایا کہ جورڈن کی پوسٹ کو صرف چھ افراد نے پسند (Like) کیا۔ اسکے فیس بک دوستوں کی کل تعداد محض پندرہ سو ہے۔ جج نے سب کچھ سنا اور جورڈن کو بیس ماہ کےلئے جیل بھیج دیا۔ دو ملزموں کو بلفاسٹ کے ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ، ’فرانسس رافیرٹے‘ کے سامنے پیش کیاگیا۔ اٹھارہ سالہ ’کیمرون آرمسٹرانگ‘ پولیس کی تحویل میں تھا۔ وکیل نے اسکی درخواستِ ضمانت پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرا موکل نوعمر طالب علم ہے۔ وہ کبھی کسی جرم میں ملوث نہیں ہوا۔ وہ کسی ہنگامے میں بھی شریک نہیں ہوا۔“ جج نے پوچھا ۔ ”تو وہ ہنگامے والی جگہ کیا کررہا تھا؟ وکیل نے کہا۔ ”وہ تجسّس میں یہ دیکھنے چلاگیا کہ کیا ہورہا ہے؟“ جج نے دوٹوک جواب دیا ۔ ”کسی کا ہنگامہ وفساد کی جگہ موجود ہونا ایسے ہی ہے جیسے وہ خود اس فساد میں شریک تھا۔“ تینتیس سالہ ’کولن منی پینی‘ پہ الزام تھا کہ اس نے پولیس پر پٹرول بم پھینکا۔ وکیل نے اِسے جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”وہ صرف دوستوں کے ہمراہ ہنگامہ دیکھنے چلا گیا تھا۔“ جج بولا ۔ ”میں پہلے ہی فیصلہ دے چکا ہوں کہ ہنگامہ وفسادکی جگہ محض موجودگی بھی جرم تصوّر ہوگی۔ ضروری نہیں کہ پٹرول بم یا پتھر پھینکنے والا ہی فسادی اور مجرم قرار پائے، محض تجسّس کی بنا پر تماشا دیکھنے والا بھی کسی رعایت کا مستحق نہیں۔“ دونوں کی ضمانتیں مسترد کرتے ہوئے انہیں پولیس کی تحویل میں رکھنے کا فیصلہ سنا دیاگیا۔ کڑے اور فوری نظامِ عدل کی چکی پوری رفتار سے چل رہی ہے۔ بلوائی تھے یا تماشائی، سب قانون وانصاف کے دو پاٹوں میں پِس رہے ہیں۔ وزیراعظم سٹارمر(Starmer) نے پرعزم لہجے میں کہا ہے ”ان لوگوں کو پچھتانا پڑیگا۔ انہیں بھی جو براہ راست بلوے میں شریک تھے اور انہیں بھی جو سوشل میڈیا پر اِس آگ کو ہوا دے رہے تھے اور اَب چھپ گئے ہیں۔ یہ ہرگز احتجاج نہیں۔ یہ منصوبہ بند فتنہ گری اور غنڈہ گردی ہے۔ کسی بھی بہانے کو فتنہ وفساد کا جواز نہیں بنایاجاسکتا۔ آزادی اظہار اور تشدّد دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ہمارا تیز رفتار نظامِ انصاف پوری طرح متحرک ہے۔“ 
اِدھر 9 مئی 2023، پندرہ ماہ بعد بھی صحرا کا بگولہ بنا ہوا ہے۔ شاید ہی کسی بلوائی کو سزا ہوئی ہو۔ ”آئینی تقاضوں“ کی پرچم بردار عدالتیں، بلوائیوں کی ڈھال بنی ہوئی ہیں۔ ایک حکم اکتوبر2023ءمیں جاری ہوا کہ خبردار جو 9 مئی میں ملوث 103 افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کوئی مقدمہ چلایا۔ دسمبر میں اتنی رعایت دے دی گئی کہ چلو مقدمے چلا لو لیکن ہمارے حکم کے بغیر نہ کسی کو سزا دینی ہے نہ بری کرنا ہے۔ اِس بات کو بھی اب آٹھ ماہ ہوچکے ہیں۔ فوجی عدالتیں پابہ زنجیر ہیں اور سول عدالتیں نہ جانے کوہِ قاف کے کون سے غار میں گہری نیند سو رہی ہیں۔ شاید دستورِ پاکستان کا ”بنیادی آئینی تقاضا،“ یہی ہے کہ ریاست پر حملہ آور بلوائی دندناتے پھریں اور عدل کے تازیانے صرف انتظامیہ اور پارلیمنٹ کی پشت پر برستے رہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ”آئینی عدم توازن“ کی ذمہ داری دوسروں کے سر ڈال دینے کے بجائے عدلیہ ، آئین کی سبز کتاب کھول کر بیٹھے اور سنجیدگی سے سوچے کہ کیا اسے آئین کی زندہ وبیدار شقوں کو زیرِزمین دفن کرکے، انکی مرقد پر اپنی صوابدید کے لالہ وگل بکھیرنے کی ”اتھارٹی“ ہے؟ 

ای پیپر دی نیشن