ہماری قوم کے سپوت ارشد ندیم نے تو جیولن تھرو میں ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کرکے بلاشبہ پاکستان‘ اپنے خاندان اور اس ارض وطن کو اپنے لئے جہنم زار بنتے دیکھ کر مضطرب ہوتے اور کڑہتے عوام کا بھی سر فخر سے بلند کیا ہے۔ اسکے جیولن تھرو کے بعد ورلڈ اولمپکس گیمز کی گراﺅنڈ میں جس والہانہ انداز میں شائقین‘ منتظمین اور کھلاڑیوں تک نے ارشد کا استقبال کیا اور پھر ملک واپسی پر جس پروٹوکول‘ جذبے‘ شوق اور لگن کے ساتھ لاہور ایئرپورٹ سے اسکے گھر میاں چنوں تک اسے پھولوں‘ ایوارڈوں تمغوں اور بے بہا انعامات کے ساتھ نواز کر پہنچایا گیا‘ وہ یقیناً اس سارے صلے اور ستائش کا مستحق ہے مگر اس ایک یادگار تھرو سے پہلے تک اسے سرکاری سطح پر کسی قسم کی پذیرائی ملی؟ ان داستانوں سے بھی سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے۔ اب ارشد ایک ٹرینڈ اور برینڈ بن چکا ہے‘ اشتہاری کمپنیاں بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لے رہی ہیں اور حکومتی عہدیداران‘ سیاست دان‘ سرکاری اور نجی اداروں کے سربراہان اور ہر شعبہ زندگی کی سرکردہ شخصیات اسکے ساتھ فوٹو شوٹ کرانے کیلئے بے تاب ہیں۔ ارشد ندیم بلاشبہ ایک قومی ہیرو کا اعلیٰ مقام حاصل کر چکا ہے‘ جس کے حاصل کردہ اعزاز نے پاکستان کی پژمردہ قوم میں نئی روح پھونک دی ہے۔ اس سے چند روز قبل بنگالی نوجوانوں نے دو قومی نظریے اور پاکستان کی دشمن شیخ حیسنہ واجد کو اسکے مال منال اور وابستگان سمیت اقتدار سے باہر پھینک کر پاکستان کی پژمردہ قوم میں بھی سرشاری کی لہر دوڑائی تھی اور 9 مئی کے کئے پر معافی کیلئے آمادہ ہوئے بیٹھے بانی پی ٹی آئی کے بے ساختہ عقدت مندوں کے دل میں بھی موجودہ حکومت کے ایسے ہی انجام اور اپنے قائد کی اقتدار میں واپسی کی لگن لگ گئی تھی جس پر حکومتی صفوں میں یقیناً کھلبلی مچی ہوئی تھی۔
میرا گمان ہے کہ بنگلہ دیش میں تبدیلی کی بنیاد پر پاکستان میں بھی انگڑائی لیتی اپوزیشن جماعتوں کی ہلچل دیکھ کر حکومت نے ارشد ندیم کو ڈوبتے کو تنکے کے مترادف اپنی بقاءکیلئے سہارے کی لاٹھی بنایا اور دھوم دھڑکے کے ساتھ اسکے استقبال اور ملکی سطح پر اسکی کامیابی کا جشن منانے کا اہتمام کیا تاکہ اسکے مخالفین کی اپنے عزائم سے توجہ ہٹ جائے اور انکے کاز کے پیچھے دوڑتے عوام کے دوڑنے کی سمت بھی تبدیل ہو جائے۔ گویا اندھے کے ہاتھ بٹیرا آگیا۔ مگر جناب! آپ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور انکی پارٹی کو مستقل طور پر سیاسی منظر سے غائب کرنے کیلئے اتنا رگڑا لگایا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں ان کیلئے پیدا ہونیوالی ہمدردیاں اب انکے ساتھ اندھی عقیدت کا روپ دھار چکی ہیں جو انکی سوچ اور سیاست کی مخالفت میں کوئی دوسری بات سننے کو ہی آمادہ نہیں، قائل ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔
اس حوالے سے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل نے فضا اتنی گرما دی ہے کہ اب انہیں حب الوطنی‘ سسٹم کے استحکام اور ملک کی سلامتی کا کوئی تقاضا بھی اپنے قائد کے فرمان سے ہیچ نظر آتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ دانشمند اور دانشور طبقات کو بھی دیدہ¿ بینا رکھنے کے باوجود مرشد کے آگے اور پیچھے کچھ نظر نہیں آتا اس لئے آپ چاہے ارشد ندیم کیلئے قومی جشن کو کتنا ہی طول دیتے رہیں‘ اندھے عقیدت مندوں کے ذہنوں میں اٹکی ہوئی سوئی کو اسکی جگہ سے ہلانا اب ناممکنات میں شامل ہو چکا ہے۔
ہفتے کے روز ہمارے دانشور سیاست دان میاں خورشید محمود قصوری نے ملکی حالات کے پل پل بدلتے لمحات کا دانشمندانہ نگاہوں کے ساتھ جائزہ لینے کیلئے ”پاکستان فورم“ کا اجلاس بلا رکھا تھا۔ اجلاس کی صدارت کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے آپا مہناز رفیع نے شرکائے اجلاس کو بالخصوص اس معاملہ میں فرداً فرداً اظہار خیال کی دعوت دی کہ بنگلہ دیش میں رونما ہونیوالی حالیہ تبدیلی کے تناظر میں کیا ہمارے ملک میں بھی ایسی تبدیلی کی کوئی لہر پیدا ہو سکتی ہے یا ہم ازل کے بدنصیب ہی رہیں گے۔ ان کا تجسس اور نکتہ آفرینی بار بار اسی ایک موضوع کے گرد گھومتی رہی۔ محترم مجیب الرحمان شامی بنگلہ دیش میں دو قومی نظریہ کے مخالفین کے نوجوانوں کے ہاتھوں پٹنے اور پھر ارشد ندیم کے عالمی اعزاز کو بکھری‘ مرجھائی‘ مایوس قوم کے دوبارہ ایک متحرک قوم کے طور پر اجاگر ہونے کے معاملہ میں اپنی رجائیت پسندی کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکے اور اسی تناظر میں انہیں پاکستان اور بنگلہ دیش کے دوقومی نظریے کے ساتھ وابستہ ہونے کا بھی گمان ہونے لگا۔ میاں خورشید محمود قصری نے بطور سابق وزیر خارجہ 1971ءکے سانحہ سقوط ڈھاکہ کے بعد سے اب تک اپنے ذاتی مشاہدات و تجربات کی روشنی میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات پر مدلل بات کی، بالخصوص خالدہ ضیاءکے دور حکومت میں بنگلہ دیش اور پاکستان کی قربت کے حوالے سے کچھ واقعات بھی اجلاس کے شرکاءکے ساتھ شیئر کئے مگر جب حالات حاضرہ پر بحث کا آغاز ہوا تو انہوں نے یہ انکشاف کرنا ضروری سمجھا کہ بعض بااختیار حلقوں کی جانب سے عمران خاں کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لیئے ان سے رجوع کیا اور میڈیئشن کا کردار ادا کرنے کے لیئے کہا گیا تھا مگر ان کے یہ کہنے پر بات رک گئی کہ عمران خاں کے ی±و ٹرن نہ لینے کی ضمانت تو وہ بھی فراہم نہیں یر سکتے۔ اجلاس میں شریک ہمارے دانشوروں کو‘ جن میں سیاست دان‘ سابق فوجی و سول بیوروکریٹس اور جید صحافی بھی شامل تھے‘ عمران خان کی سیاست سے آگے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ بات 9 مئی کے واقعات کی ہوئی تو ہمارے سارے محترم دانشور اس میں عمران خان کے بیانیہ کے ساتھ کھڑے نظر آئے‘ بات قومی افہام و تفہیم کیلئے ماحول سازگار بنانے اور حکومت اور اپوزیشن کے باہم مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی چلی تو بیک زبان ایک ہی سوال اٹھا کہ فارم 47 کی بنیاد پر اقتدار میں آنیوالوں سے کیوں بات کی جائے اور پھر یہ نکتہ آفرینی سامنے آئی کہ ماضی میں بھی تو ہر حکمران اور ہر سیاست دان مسائل و منافرت کی ڈالی گئی گرہیں کھلوانے کیلئے اصل طاقت و اختیار والوں کی جانب ہی رجوع کرتا رہا ہے۔ سو اب بھی نتیجہ خیز بات انہی طاقت و اختیار والوں کے ساتھ ہی ہو سکتی ہے۔ بات مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلہ میں عدلیہ کی جانب سے آئین کی شقوں کو غیرموثر بنانے کے معاملہ کی جانب بڑھی تو جسٹس منصور کا اسی روز کا خطابِ دلپذیر ڈھال بنا نظر آیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر بہرصورت عملدرآمد ہونا ہے۔ اس سے سرمو انحراف نہیں ہو سکتا۔ ورنہ آئین‘ سسٹم اور ملک کی تباہی ہے۔ کسی دانشور کے ذہن میں یہ نکتہ سماتا نظر ہی نہ آیا کہ سپریم کورٹ آئین کی متعلقہ شقوں سے انحراف کرکے اپنی سیاست اور من مرضی کے تحت فیصلہ صادر کر دے تو کیا یہ آئین اور سسٹم سے کھلواڑ اور ملک کو تباہی کی جانب دھکیلنے کے مترادف نہیں۔ محترم دانشوروں کے ذہن میں اس نازک قومی ایشو کے معاملہ میں مرشد کی زبان سے ادا ہونیوالے الفاظ اور ان کا بیانیہ ہی راسخ نظر آیا۔
بلاشبہ آج عوام کی واضح اکثریت اسی سوچ کی اسیر نظر آتی ہے جس کا عملی مظاہرہ 8 فروری کے انتخابات کے روز پولنگ بوتھوں پر بے ساختہ کیا گیا کہ ووٹر بلّے کے انتخابی نشان سے محروم ہونیوالی پارٹی کے بانی قائد کے نامزد کردہ امیدواروں کے انتخابی نشان ڈھونڈ ڈھونڈ کر انکے ناموں کے آگے اپنے ووٹ کی مہر لگاتے رہے۔ حضور آپ انتخابی سیاسی میدان میں کسی کو دیوار سے لگانے اور راندہ درگاہ بنانے کا کوئی ہتھکنڈہ ہاتھ سے جانے نہیں دینگے تو اس کا فطری ردعمل وہی ہوگا جو 8 فروری کو پولنگ بوتھوں میں نظر آیا۔ اور آج یہ کیفیت بن گئی ہے کہ ایسے جبری اقدامات کے جواز میں کوئی منطق اور کوئی دلیل کارگر نہیں ہو رہی اور مرشد نے پورے اعتماد کے ساتھ اپنے مخالف سیاست دانوں کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند کرکے ”میں نہیں تو کچھ بھی نہیں“ والا ماحول گرمادیا ہوا ہے۔ سو اب جیسے بھی ہو ان سے انکی شرائط پر مذاکرات طاقت اور اختیار والوں کی مجبوری بنا نظر آرہا ہے اور سارے اندھے عقیدت مندوں کی سوئی اسی ایک نکتے پر اٹکی ہوئی ہے۔
دانشوروں کی اس نشست میں میری معروضات یہی تھیں کہ جیسے تیسے ہر ریاستی ادارے اور انکی قیادتوں کو آئین کی پاسداری و عملداری کا پابند بنایا جائے اور اس کیلئے وسیع تر ملکی و قومی مفاد میں تمام سٹیک ہولڈرز ایک میز پر بیٹھ کر سوشل کنٹریکٹ ( عمرانی معاہدہ) کریں۔ اس حوالے سے چاہے نیا سسٹم اور طاقت و اختیارکے نئے منابع متعین کرنے کیلئے نیا آئین ہی کیوں نہ مرتب کرنا پڑے۔ اس سے بھی گریز نہ کیاجائے۔ طاقت و اختیار کے سارے منابع کو صرف انکی آئینی حدود و قیود کا پابند کر دیا جائے تو اقتدار و اختیار کی کشمکش کا ماضی جیسا کوئی ماحول بننے کا امکان ہی پیدا نہ ہو۔ اوراگر سٹیک ہولڈرز میں ایسی افہام و تفہیم کا کوئی امکان نہیں تو پھر قوم کو اپنے اس استفسار کا جواب ملنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی کہ:
کیا اسی زہر کو تریاق سمجھ کر پی لیں
ناصحوں کو تو سجھائی نہیں دیتا کچھ بھی